تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 47) قُلْ مَا سَاَلْتُكُمْ مِّنْ اَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ …: یہ دوسری تلقین ہے کہ اس بات کی صراحت کر دیں کہ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے پر میں تم سے کوئی اجرت یا معاوضہ تو نہیں مانگتا، میں نے تم سے جو بھی اجرت مانگی ہے تو وہ تمھاری ہوئی۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ اگر تم نے مجھے کچھ دیاہے تو وہ تم لے لو، جب اسے معلوم ہو کہ اس نے اسے کچھ نہیں دیا، مطلب صرف اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ تم نے مجھے کچھ دیا ہی نہیں جو میں تمھیں واپس دوں۔ ایسے ہی یہاں فرمایا کہ اگر میں نے تم سے کوئی مزدوری مانگی ہے تو وہ تمھاری ہوئی۔ مطلب یہ کہ میں نے تم سے کوئی مزدوری مانگی ہی نہیں، میری دعوت تو محض تمھاری خیر خواہی کے لیے ہے، جیسا کہ ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرمایا: « وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ » [ الشعراء: ۱۲۷] اور میں اس پر تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، میری اجرت تو رب العالمین ہی کے ذمے ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ میں نے یہ پیغام پہنچا کر تم سے کسی چیز کا سوال کیا ہے تو وہ تمھارے ہی فائدے کی چیز ہے۔ میرا تم سے مطالبہ صرف یہ ہے کہ تم اپنے رب تعالیٰ کی طرف جانے والا راستہ اختیار کرو، جیسا کہ فرمایا: « قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ اِلَّا مَنْ شَآءَ اَنْ يَّتَّخِذَ اِلٰى رَبِّهٖ سَبِيْلًا » [ الفرقان: ۵۷ ] کہہ دے میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا مگر جو چاہے کہ اپنے رب کی طرف کوئی راستہ اختیار کرے۔

وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ: یعنی الزام لگانے والے جو کچھ چاہیں کہتے رہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ میری مزدوری اللہ کے ذمے ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ میرے صدق اور خلوص نیت پر گواہ ہے کہ اس کا پیغام پہنچانے میں مجھے دنیا کی کسی چیز کا طمع نہیں، نہ میں اس کے سوا کسی سے کسی مزدوری یا بدلے کا طلب گار ہوں، نہ اس کی خواہش رکھتا ہوں۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.