(آیت 31) ➊ وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ بِهٰذَا الْقُرْاٰنِ …: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کفارِ مکہ سے توحید، رسالت اور آخرت پر بات کرتے ہوئے کبھی اپنی وحی کی تائید کے طور پر تورات و انجیل کا ذکر فرماتے کہ قرآن کی طرح ان میں بھی توحید اور آخرت کا ذکر ہے، تو کفارِ مکہ کبر و عناد میں آکر کہتے کہ نہ ہم اس قرآن کو مانیں گے، نہ اس سے پہلی کسی کتاب کو۔ قرآن مجید نے ان کی اس بات کے جواب یا اس کی تردید کی ضرورت محسوس نہیں فرمائی، کیونکہ انھوں نے بات ہی ایسی کی جس کا نتیجہ پہلے تمام پیغمبروں کا انکار تھا، جو واضح طور پر غلط تھا اور انھوں نے یہ بات محض ضد میں آکر کہی تھی، ورنہ وہ پہلے پیغمبروں اور ان کی کتابوں کو جانتے تھے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ انھوں نے کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے موسیٰ علیہ السلام جیسے معجزے لانے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ سورۂ قصص میں ہے: «لَوْ لَاۤ اُوْتِيَ مِثْلَ مَاۤ اُوْتِيَ مُوْسٰى»[ القصص: ۴۸ ]”اسے اس جیسی چیزیں کیوں نہ دی گئیں جو موسیٰ کو دی گئیں؟“ کبھی تورات کی طرح لکھی ہوئی کتاب لانے کا مطالبہ کیا، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل میں ہے: «وَ لَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ» [ بني إسرائیل: ۹۳ ]”اور ہم تیرے چڑھنے کا ہرگز یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ تو ہم پر کوئی کتاب اتار لائے جسے ہم پڑھیں۔“ اگر پہلے کسی نبی یا اس کی شریعت یا کتاب کو مانتے ہی نہ تھے تو ان مطالبوں کا کیا مطلب؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی بات کی تردید کے بجائے قیامت کے دن ان کے ہونے والے برے حال کا ذکر فرمایا، جس قیامت کا وہ شدت سے انکار کرتے اور مذاق اڑاتے تھے۔
➋ وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ …: ”رَجَعَ يَرْجِعُ“(ض) لازم بھی آتا ہے اور متعدی بھی، لوٹنا اور لوٹانا۔ یہاں لوٹانا مراد ہے۔ ” الظّٰلِمُوْنَ “ ظالم سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے، الف لام کی وجہ سے ”یہ ظالم“ ترجمہ کیا گیا ہے۔ یعنی ان میں سے ہر ایک اپنی گمراہی کا الزام دوسروں پر دھر رہا ہو گا، جیسا کہ عموماً ناکامی کی صورت میں ہوتا ہے۔ یہ مکالمہ جہنم میں داخلے سے پہلے ہو گا، تاہم جہنم میں داخلے کے بعد بھی ان کا یہ جھگڑا جاری رہے گا۔ دیکھیے سورۂ اعراف (۳۸، ۳۹)، ابراہیم (۲۱)، قصص (۶۳)، احزاب (۶۶ تا ۶۸)، مومن (۴۷، ۴۸)، ص (۵۵ تا ۶۱)، بقرہ (۱۶۵ تا ۱۶۷) اور حمٰ السجدہ (۲۹)۔