(آیت 28) ➊ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ: ” كَآفَّةً “ بمعنی ”عَامَّةً“ ہے، یہ ”اَلنَّاسُ“ سے حال ہے، یعنی ہم نے تجھے نہیں بھیجا، مگر تمام لوگوں کی طرف۔ آخرت اور توحید کے بیان کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا بیان فرمایا۔ داؤد و سلیمان علیھما السلام کو نبوت کے ساتھ ایسی بادشاہت عطا ہوئی جو ان کا خاصہ تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی رسالت عطا ہوئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی نبی کو عطا نہیں ہوئی۔ وہ یہ کہ پہلے تمام انبیاء صرف اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے اور ان کی دعوت محدود وقت تک کے لوگوں کے لیے ہوتی تھی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روئے زمین کی تمام اقوام اور سب لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قیامت تک کے لوگوں کے لیے ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ اعراف (۱۵۸)، انبیاء (۱۰۷) اور سورۂ فرقان (۱) کی تفسیر۔
➋ ” كَآفَّةً “ کا ایک اور معنی بھی کیا گیا ہے کہ ”كَفَّ يَكُفُّ كَفًّا“(ن) کا معنی روکنا ہے اور ” كَآفَّةً “ میں تاء تانیث کی نہیں، بلکہ مبالغہ کی ہے، جیسا کہ ”عَلَّامَةٌ“ اور ”رَاوِيَةٌ“ میں ہے، بہت روکنے والا، یعنی ہم نے تجھے لوگوں کو (ضلالت سے) بہت روکنے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔ یہ معنی بھی درست ہے۔
➌ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا: یعنی آپ کی دعوت میں بشارت و نذارت دونوں جمع ہیں، اطاعت کرنے والوں کے لیے خوش خبری دینا اور نہ ماننے والوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانا۔
➍ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ: یعنی اکثر لوگ آپ کی قدرو منزلت نہیں جانتے، انھیں احساس نہیں کہ کیسی عظیم الشّان ہستی کی بعثت سے انھیں نوازا گیا ہے، اس لیے جہل کی وجہ سے وہ آپ کی مخالفت اور عداوت پر کمر بستہ ہیں۔