(آیت 21) ➊ وَ مَا كَانَ لَهٗ عَلَيْهِمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ: یعنی ابلیس کو یہ طاقت حاصل نہ تھی کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کرنا چاہے اسے زبردستی ڈنڈے کے زور سے نافرمانی کی راہ پر کھینچ کر لے جائے۔ اسے صرف یہ اختیار تھا کہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال سکے، اسے سبز باغ دکھا کر دھوکے میں مبتلا کرے اور اس کے سامنے گناہوں کو خوش نما کر کے پیش کرے۔
➋ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يُّؤْمِنُ بِالْاٰخِرَةِ: یعنی ابلیس کو یہ اختیار دینے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت یہ تھی کہ معلوم ہو جائے کہ کون آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور کون ہے جسے اس میں شک ہے اور سب دیکھ لیں کہ رحمان کی بات ماننے والا کون ہے اور شیطان کی پیروی کرنے والا کون، جنتی کون ہے اور جہنمی کون۔
➌ مِمَّنْ هُوَ مِنْهَا فِيْ شَكٍّ: معلوم ہوا آخرت میں شک کرنا بھی کفر ہے اور سبا والوں کی ناشکری اور سرکشی کا اصل سبب یہ تھا کہ انھیں آخرت پر یقین نہیں تھا۔ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ صحیح عقیدہ ہی انسان کو راہِ راست پر قائم رکھ سکتا ہے اور آخرت پر یقین ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو سیدھے راستے پر چلنے کا پابند رکھتی ہے۔
➍ وَ رَبُّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ: تیرا رب ہر چیز پر پوری طرح نگران اور نگہبان ہے، کوئی چیز اس کی حفاظت اور نگرانی سے باہر نہیں، نہ ہی شیطان اس سے زبردست ہو کر کسی کو گمراہ کر سکتا ہے، اس نے خود ہی اپنی حکمت کے تحت اسے آزمائش کے لیے اور حجت تمام کرنے کے لیے انسانوں کے دل میں وسوسہ ڈالنے کا اختیار دے رکھا ہے۔