(آیت 10) ➊ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا: ” فَضْلًا “ پر تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ”بڑا فضل“ کیا گیا ہے۔ پچھلی آیات کے ساتھ داؤد علیہ السلام کے ذکر کی مناسبت یہ ہے کہ پچھلی آیت میں فرمایا کہ زمین وآسمان میں ہر اس بندے کے لیے عظیم نشانی اور عبرت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔ اب اپنے رجوع کرنے والے کچھ بندوں کا اور ان کے چند واقعات کا ذکر فرمایا، ان میں سے ایک داؤد علیہ السلام ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت سی عنایات فرمائیں اور انھیں متعدّد قسم کی نعمتیں بخشیں۔ ان پر اللہ تعالیٰ کی چند عنایات کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے جو قرآن یا حدیث میں آئی ہیں۔
وہ بکریاں چرانے والے ایک عام نوجوان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کفار کے بادشاہ جالوت جیسے گراں ڈیل دشمن کو قتل کروا کر بنی اسرائیل کا محبوب بنا دیا اور پھر ایسا عروج عطا فرمایا کہ وہ طالوت کی وفات کے بعد بنی اسرائیل کے بادشاہ بن گئے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں سلطنت کے ساتھ علم و حکمت بھی عطا فرمایا۔ (بقرہ: ۲۵۱) انھیں نبوت بخشی اور زبور عطا فرمائی۔ (نساء: ۱۶۳) انھیں زبردست قوت عطا فرمائی۔ (سورۂ ص: ۱۷) انھیں اور ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو خاص علم عطا فرمایا۔ (نمل: ۱۵) انھیں پرندوں کی بولی سکھائی۔ (نمل:۱۶) انھیں توبہ و انابت کا وصف عطا فرمایا اور ان کی مغفرت فرمائی۔ (سورۂ ص: ۲۴، ۲۵) انھیں صحیح فیصلہ کرنے کی استعداد اور عدل کرنے کی توفیق بخشی۔ (انبیاء: ۷۹۔ ص: ۲۶) ان کے لیے لوہا نرم کر دیا اور انھیں زرہیں بنانا سکھایا۔ (انبیاء: ۸۰۔ سبا: ۱۰، ۱۱) انھیں نہایت خوب صورت آواز عطا فرمائی اور پہاڑوں اور پرندوں کو ان کے ساتھ تسبیح دہرانے کا حکم دیا۔ (انبیاء: ۷۹۔ سبا: ۱۰) ان کے لیے (زبور) پڑھنا ہلکا کر دیا گیا تھا، چنانچہ وہ گھوڑوں پر زین ڈالنے کا حکم دیتے اور ان پر زین ڈالنے سے پہلے اسے پڑھ لیتے تھے۔ [ دیکھیے بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالٰی: «و آتینا داوٗد زبورا» : ۳۴۱۷ ] انھیں صوم و صلاۃ کی اور اس کے ساتھ جہاد فی سبیل اللہ میں استقامت کی وہ توفیق بخشی جس کی تفصیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی کہ ”وہ رات کا نصف سو جاتے، پھر ایک ثلث قیام کرتے اور ایک سدس پھر سو جاتے تھے اور ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔“[ أبوداوٗد، الصیام، باب في صوم یوم و فطر یوم: ۲۴۴۸، و قال الألباني صحیح ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دشمن سے مڈبھیڑ ہوتی تو (داؤد علیہ السلام) بھاگتے نہیں تھے۔“[ بخاري، الصوم، باب صوم داوٗد علیہ السلام: ۱۹۷۹، عن عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما ] اور وہ صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ [ دیکھیے بخاري، البیوع، باب کسب الرجل و عملہ بیدہ: ۲۰۷۲ ] تلاش کرنے سے ان پر اللہ تعالیٰ کی مزید عنایات بھی مل سکتی ہیں۔
➋ يٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَ الطَّيْرَ: اس سے پہلے لفظ ”قُلْنَا“(ہم نے کہا) محذوف ہے، جو خود بخود سمجھ میں آرہا ہے۔ ” اَوِّبِيْ “”آبَ يَؤُبُ أَوْبًا“(ن) لوٹنا اور ”أَوَّبَ يُأَوِّبُ“(تفعیل) لوٹانا، دہرانا۔ یعنی ہم نے پہاڑوں سے کہا کہ اے پہاڑو! ان کے ساتھ تسبیح اور تلاوت کے کلمات دہراؤ اور اے پرندو! تم بھی۔ گویا ” وَ الطَّيْرَ “ کا عطف ”جِبَالٌ“ کے محل پر ہے، اس لیے منصوب ہے، یا یہ ”سَخَّرْنَا لَهُ“ محذوف کا مفعول ہے، یعنی ہم نے ان کے لیے پرندے بھی تسبیح کرنے کے لیے مسخّر کر دیے، جیسا کہ سورۂ ص میں فرمایا: «وَ الطَّيْرَ مَحْشُوْرَةً كُلٌّ لَّهٗۤ اَوَّابٌ» [ صٓ: ۱۹ ]”اور پرندوں کو بھی (مسخّر کر دیا) جب کہ وہ اکٹھے کیے ہوئے سب اس کے لیے بہت رجوع کرنے والے تھے۔“ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کا بیان سورۂ انبیاء (۷۹) میں گزر چکا ہے۔
➌ وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ: داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کرنے کی کیفیت اکثر مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ وہ اللہ کے حکم سے آگ میں پگھلائے بغیر ان کے ہاتھ میں موم یا گندھے ہوئے آٹے کی طرح ہوتا تھا۔ اگر ایسا ہو تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، مگر یہ صرف قتادہ کا قول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے انھیں لوہا پگھلا کر نرم کرنے کا سلیقہ سکھا دیا ہو تو یہ بھی ” وَ اَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ “ ہی ہے۔ آج کل کسی معجزے یا کرامت کے بغیر ہنر کی بدولت لوہا لوگوں کے ہاتھوں میں نرم ہو چکا ہے۔ داؤد علیہ السلام کے لیے سب سے پہلے لوہے کی بھٹی ایجاد کرنے، اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے اور سب سے پہلے زرہیں بنانے کا اور اس بات کا شرف بھی کچھ کم نہیں کہ بعد میں آنے والوں نے انھی سے یہ ہنر حاصل کیے۔ نیز دیکھیے سورۂ انبیاء (۸۰)۔