تفسير ابن كثير



تفسیر القرآن الکریم

(آیت 3) وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَا تَاْتِيْنَا السَّاعَةُ: یہ بیان کرنے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو بے حساب نعمتیں کی ہیں، ان پر دنیا کے علاوہ آخرت میں بھی حمد اور شکر اسی کے لیے ہے، یہ بیان فرمایا کہ کفار اپنے خالق و مالک کی حمد کے بجائے دوبارہ زندہ ہو کر اس کے سامنے پیش ہونے کو تسلیم ہی نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہیں آئے گی۔

قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتَاْتِيَنَّكُمْ: قسم اٹھا کر بات کرنے سے اس بات کی اہمیت اور اس کے واقع ہونے کی تاکید مقصود ہوتی ہے، جس پر قسم اٹھائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بات جتنی شدت سے کی گئی ہو اس کا رد اتنی ہی یا اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ کفار قیامت کا انکار قسمیں اٹھا اٹھا کر کرتے تھے، جیسا کہ اللہ نے ذکر فرمایا: «‏‏‏‏وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَا يَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ يَّمُوْتُ» ‏‏‏‏ [ النحل: ۳۸ ] اور انھوں نے اپنی پکی قسمیں کھاتے ہوئے اللہ کی قسم کھائی کہ اللہ اسے نہیں اٹھائے گا جو مر جائے۔ وہ قیامت کا مذاق بھی اڑاتے تھے اور اسے جلد از جلد لانے کا مطالبہ بھی کرتے تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر انھیں بتائیں کہ وہ تم پر ضرور بالضرور آئے گی۔ حافظ ابن کثیر نے فرمایا کہ یہ آیت ان تین آیات میں سے ایک ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ اپنے رب کی قسم کھا کر بتائیں کہ قیامت ضرور قائم ہو گی۔ ان میں سے ایک سورۂ یونس کی آیت ہے: «‏‏‏‏وَ يَسْتَنْۢبِـُٔوْنَكَ اَحَقٌّ هُوَ قُلْ اِيْ وَ رَبِّيْۤ اِنَّهٗ لَحَقٌّ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ» ‏‏‏‏ [ یونس: ۵۳ ] اور وہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا یہ سچ ہی ہے؟ تو کہہ ہاں! مجھے اپنے رب کی قسم! یقینا یہ ضرور سچ ہے اور تم ہر گز عاجز کرنے والے نہیں ہو۔ دوسری یہ آیت اور تیسری سورۂ تغابن میں ہے: «‏‏‏‏زَعَمَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ لَّنْ يُّبْعَثُوْا قُلْ بَلٰى وَ رَبِّيْ لَتُبْعَثُنَّ» ‏‏‏‏ [ التغابن: ۷ ] وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا انھوں نے گمان کیا کہ وہ ہرگز اٹھائے نہیں جائیں گے۔ کہہ دے کیوں نہیں؟ میرے رب کی قسم! تم ضرور بالضرور اٹھائے جاؤ گے۔

عٰلِمِ الْغَيْبِ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ…: عٰلِمِ الْغَيْبِ رَبِّيْ کی صفت ہے۔ عَزَبَ يَعْزُبُ (ن، ض) غائب ہونا، چھپا رہنا۔ وَ لَاۤ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْبَرُ … میں اَصْغَرُ اور اَكْبَرُ پر رفع مبتدا ہونے کی وجہ سے ہے۔ اِلَّا حرف استثنا ہے اور فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ خبر ہے۔ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ سے مراد لوح محفوظ ہے۔ کتاب کو واضح کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کتابوں میں لکھی ہوئی بات ڈھونڈنا پڑتی ہے، مگر وہ ایسی کتاب ہے جو ہر چیز کو خود ہی واضح کر دیتی ہے۔

➍ قیامت کے منکروں کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی اور ہے کہ جب ہم مر کر مٹی ہو گئے اور ہماری خاک کے ذرّات بھی کہاں سے کہاں منتشر ہو گئے تو ہم دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان سے کہو، مجھے اپنے اس رب کی قسم ہے جو غیب کو جاننے والا ہے! جس سے ذرہ برابر کوئی چیز بھی چھپی ہوئی نہیں، نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز ہے اور نہ بڑی، مگر اس کے علم میں ہے اور لوح محفوظ میں درج ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مرنے والوں کے ذرّات جہاں بھی ہوں وہ سب سے واقف بھی ہے اور انھیں جمع کرنے اور دوبارہ جوڑنے اور زندہ کرنے پر قادر بھی ہے۔ دیکھیے سورۂ ق (۳، ۴) اور قیامہ (۳، ۴)۔

ذَرَّةٍ غبار کے اس چھوٹے سے چھوٹے حصے کو کہتے ہیں جو روشنی میں چمکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں کہ اس سے چھوٹی ہر چیز بھی کتاب مبین میں ہے اس حقیقت کا بیان ہے جو ان آیات کے نزول کے سیکڑوں برس بعد تجربے سے ثابت ہوئی کہ ذرہ (ایٹم) بھی قابل تقسیم ہے اور اس سے چھوٹی بھی بہت سے چیزیں موجود ہیں۔

وَ لَاۤ اَكْبَرُ: یہاں ایک سوال ہے کہ یہ کہنے کے بعد کہ ذرے سے چھوٹی چیزیں بھی کتاب مبین میں ہیں یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ اس سے بڑی چیزیں بھی کتاب مبین میں ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ اس کی ضرورت یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ لوح محفوظ میں صرف باریک چیزوں کا علم ہی محفوظ کیا گیا ہے۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.