(آیت 72) ➊ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ …: کائنات میں اللہ تعالیٰ کے دو قسم کے احکام جاری و ساری ہیں، ایک اس کا حکم ”كُنْ“(ہو جا) ہے، جب وہ کسی چیز کو یہ حکم دیتا ہے تو وہ ہو جاتی ہے، ممکن نہیں کہ وہ اس کے حکم کے مطابق نہ ہو۔ اسے کونی حکم کہتے ہیں۔ دوسرا حکم وہ ہے جس میں اس نے اختیار دے دیا ہے کہ جسے حکم دیا گیا ہے چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ ساتھ ہی تعمیل پر ثواب کا وعدہ اور عمل نہ کرنے پر عذاب کی وعید ہے، اسے شرعی حکم کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام و فرائض کا نام ”امانت“ ہے۔ جنّ و انس کو چھوڑ کر باقی پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے کونی احکام کی پابند ہے۔ ان میں سے کسی کو اللہ کی نافرمانی کا اختیار ہی نہیں۔ نہ وہ نافرمانی کرتے ہیں، نہ کر سکتے ہیں۔ انسان بعض چیزوں میں دوسری مخلوقات کی طرح کونی احکام کا پابند ہے، مثلاً اس کا پیدا ہونا، اس کے جسم کے تمام نظام، سانس کی آمدورفت، دل کی دھڑکن، جوانی، بڑھاپے، صحت، بیماری، زندگی اور موت کے مراحل اس کے اختیار میں نہیں، البتہ بعض چیزوں یعنی شرعی احکام میں اسے اختیار دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے لیے ثواب یا عذاب رکھا گیا ہے۔ اس آیت میں امانت سے مراد شرعی احکام، یعنی فرائض و محرمات ہیں جو انسان پر عائد کیے گئے ہیں۔
ترجمان القرآن ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے، چنانچہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ان کا قول نقل کیا ہے: ” اَلْأَمَانَةُ الْفَرَائِضُ «اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ» إِنْ أَدَّوْهَا أَثَابَهُمْ، وَ إِنْ ضَيَّعُوْهَا عَذَّبَهُمْ، فَكَرِهُوْا ذٰلِكَ، وَ أَشْفَقُوْا مِنْ غَيْرِ مَعْصِيَةٍ، وَ لٰكِنْ تَعْظِيْمًا لِّدِيْنِ اللّٰهِ أَنْ لَّا يَقُوْمُوْا بِهَا، ثُمَّ عَرَضَهَا عَلٰي آدَمَ، فَقَبِلَهَا بِمَا فِيْهَا، وَ هُوَ قَوْلُهُ: «وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا» غُرًّا بِأَمْرِ اللّٰهِ “[ طبري: ۲۸۹۱۹، ۲۸۹۱۷ ]”امانت سے مراد فرائض ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا کہ اگر وہ انھیں ادا کریں گے تو وہ انھیں ثواب دے گا اور اگر انھوں نے وہ ضائع کیے تو انھیں عذاب دے گا۔ تو انھوں نے اسے ناپسند کیا اور اس سے ڈر گئے، کسی نافرمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین پر عمل کو بہت بڑا سمجھتے ہوئے کہ وہ اس پر قائم نہیں رہ سکیں گے، پھر ان (فرائض) کو آدم (یعنی انسان) پر پیش کیا تو اس نے ان کو اس (ثواب و عذاب) سمیت قبول کر لیا جو ان میں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے: «وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا» ”اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ ہمیشہ سے بہت ظالم بہت جاہل ہے۔“ یعنی وہ اللہ کے حکم سے غافل ہے۔“
صحابہ اور تابعین سے جتنی تفسیریں آئی ہیں وہ سب اس میں آ جاتی ہیں، جو ابن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا، مثلاً ابن کثیر میں ہے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”عورت کو اس کی شرم گاہ کا امانت دار بنایا گا۔“ بعض نے کہا: ”اس سے مراد غسل جنابت ہے۔“ زید بن اسلم نے فرمایا: ”مراد نماز، روزہ اور غسل جنابت ہے۔“ خلاصہ یہ کہ تمام اوامر و نواہی، فرائض و محرمات انسان کے لیے اللہ کی طرف سے امانت ہیں اور یہ امانت اتنی عظیم اور بھاری چیز ہے کہ آسمان و زمین اور پہاڑوں نے اتنی بڑی مخلوقات ہونے کے باوجود اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے۔
➋ بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ بات تمثیلی طور پر بیان کی گئی ہے، یعنی اتنی بڑی مخلوقات میں یہ ذمہ داری اٹھانے کی استعداد نہیں جو انسان میں موجود ہے، ورنہ ایسا نہیں کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑ کے سامنے امانت پیش کی ہو اور انھوں نے اسے قبول نہ کیا ہو۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ تاویل کی ضرورت تب ہوتی ہے جب ظاہری معنی مراد لینا ممکن نہ ہو، جب کہ زمین و آسمان اور پہاڑوں میں ادراک اور سمجھ کا ہونا، ان کا اللہ کی تسبیح کرنا، ان کا رونا اور خوش ہونا متعدد آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۷۳)، بنی اسرائیل (۴۴)، نور (۴۱)، حشر (۲۱)، نحل (۴۸)، دخان (۲۹) اور سورۂ حم السجدہ (۲۱)۔
➌ شاہ عبدالقادر نے ” ظَلُوْمًا جَهُوْلًا “ کا ترجمہ ”بے ترس نادان“ کیا ہے اور پھر لکھتے ہیں: ”یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا۔ امانت کیا؟ پرائی چیز رکھنی اپنی خواہش کو روک کر، زمین و آسمان میں اپنی خواہش کچھ نہیں، یا ہے تو وہی ہے جس پر قائم ہیں۔ آسمان کی خواہش پھرنا، زمین کی خواہش ٹھہرنا۔ انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے۔ اس پرائی چیز کو برخلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے۔ اس کا انجام یہ کہ منکروں کو قصور پر پکڑنا اور ماننے والوں کا قصور معاف کرنا۔ اب بھی یہی حکم ہے کہ کسی کی امانت کوئی جان کر ضائع کرے تو بدلا ہے اور بے اختیار ضائع ہو تو بدلا نہیں۔“(موضح) شاہ صاحب کے کلام کا آخری حصہ (اس کا انجام یہ…) اگلی آیت ” لِيُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ “ کی تفسیر ہے۔
➍ لفظ امانت جس طرح ان فرائض اور اوامر و نواہی پر بولا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر عائد ہوئے اور اس نے انھیں قبول کیا، اسی طرح اس صفت پر بھی بولا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہے، جس کی بدولت وہ ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرتا اور ان فرائض کو ادا کرتا ہے جو حق تعالیٰ نے اس پر عائد کیے ہیں۔ چنانچہ حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں، ان میں سے ایک میں نے دیکھ لی ہے اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیان فرمایا: [ أَنَّ الْأَمَانَةَ نَزَلَتْ فِيْ جَذْرِ قُلُوْبِ الرِّجَالِ، ثُمَّ عَلِمُوْا مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ عَلِمُوْا مِنَ السُّنَّةِ ]”یعنی امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں اتری، پھر انھوں نے اسے قرآن سے سیکھا، پھر انھوں نے سنت سے سیکھا۔“ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے اٹھائے جانے کے متعلق بتایا، فرمایا: [ يَنَامُ الرَّجُلُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثْلَ أَثَرِ الْوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّوْمَةَ فَتُقْبَضُ فَيَبْقٰی أَثَرُهَا مِثْلَ الْمَجْلِ، كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلٰی رِجْلِكَ فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِرًا، وَ لَيْسَ فِيْهِ شَيْئٌ، فَيُصْبِحُ النَّاسُ يَتَبَايَعُوْنَ فَلَا يَكَادُ أَحَدٌ يُؤَدِّي الْأَمَانَةَ، فَيُقَالُ إِنَّ فِيْ بَنِيْ فُلاَنٍ رَجُلاً أَمِيْنًا وَ يُقَالُ لِلرَّجُلِ مَا أَعْقَلَهُ وَ مَا أَظْرَفَهُ وَ مَا أَجْلَدَهُ وَ مَا فِيْ قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيْمَانٍ ][ بخاري، الرقاق، باب رفع الأمانۃ: ۶۴۹۷ ]”آدمی سوئے گا تو اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا نشان ہلکے سے داغ کی طرح رہ جائے گا۔ پھر ایک اور دفعہ سوئے گا تو (مزید) اٹھا لی جائے گی، تو اس کا نشان ایک چھالے کی طرح رہ جائے گا، جیسے تو کوئی انگارا اپنے پاؤں پر لڑھکائے تو ایک چھالا پھول آتا ہے، تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو، حالانکہ اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ حال یہ ہو جائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خرید و فروخت کریں گے اور قریب نہیں ہو گا کہ کوئی بھی امانت ادا کرے، حتیٰ کہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کہا جائے گا کہ فلاں آدمی کس قدر عقل مند، کس قدر ذہین اور کتنا مضبوط ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان نہیں ہو گا۔“
➎ لفظ ”امانت“ کا ایک اور مفہوم بھی ہے، بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ مَنْ حَلَفَ بِالْأَمَانَةِ فَلَيْسَ مِنَّا ][ أبو داوٗد، الإیمان و النذور، باب کراھیۃ الحلف بالأمانۃ: ۳۲۵۳، و قال الألباني صحیح ]”جس نے امانت کی قسم اٹھائی وہ ہم میں سے نہیں۔“ اس حدیث میں امانت سے کیا مراد ہے، اکثر شارحین حدیث نے فرمایا کہ آدمی کی طرح اس کی امانت بھی چونکہ مخلوق ہے اور مخلوق کی قسم کھانا جائز نہیں، اس لیے اس پر یہ سخت حکم لگایا گیا ہے۔ مگر میری دانست میں اس کا مصداق عیسائیوں کی شریعت کے عقائد و احکام پر مشتمل وہ کتاب ہے جو ان کے بادشاہ قسطنطین کے زمانہ میں اس کے حکم سے تین سو اٹھارہ پادریوں نے تصنیف کی تھی اور اس کا نام ”اَلْأَمَانَةُ الْكَبِيْرَةُ“ رکھا تھا۔ جس میں بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا گیا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں: ”انھوں نے اس کا نام ”اَلْأَمَانَةُ الْكَبِيْرَةُ“ رکھا، حالانکہ درحقیقت وہ ”اَلْخِيَانَةُ الْحَقِيْرَةُ“ ہے۔“ تفسیر ابن کثیر میں اس کی تفصیل سورۂ آل عمران کی آیات (۵۵ تا ۵۸) اور سورۂ روم کی ابتدائی آیات اور کئی اور مقامات کی تفسیر میں موجود ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کہ ”امت مسلمہ بھی یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چل پڑے گی“ ہماری امت کے بعض بادشاہوں نے بھی اپنے زمانے کے علماء کے ذمے یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ شریعت کے احکام کے لیے کتاب تصنیف کریں، مگر ان علماء نے کتاب و سنت کے بجائے اقوال جمع کر کے اسے شریعت کے قوانین قرار دیا اور شاید ہی کوئی اللہ کی حد باقی رہی ہو جسے انھوں نے حیلے بہانے سے ختم نہ کیا ہو۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اس امت پر احسان عظیم ہے کہ آسمانی ہدایت قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس لیے لوگوں کے اقوال کو شریعت اسلام قرار دینے والے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور ان شاء اللہ کامیاب ہو بھی نہیں سکیں گے۔ مختصر یہ کہ امانت نامی کتاب، جسے عیسائی مقدس کتاب سمجھتے اور اس کی قسم اٹھاتے تھے، مسلمانوں کو نہایت سختی کے ساتھ اس کی قسم کھانے سے منع کر دیا گیا۔