(آیت 67)وَ قَالُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا …: ”سَادَةٌ“”سَيِّدٌ“ کی جمع ہے اور ”كُبَرَاءُ“”كَبِيْرٌ“ کی جمع ہے۔ ابن کثیر میں ہے: ”طاؤس نے فرمایا ” سَادَتَنَا “ سے مراد سردار اور چودھری ہیں اور ” كُبَرَآءَنَا “ سے مراد عالم ہیں۔“ قرآن مجید میں لوگوں کی گمراہی کا باعث بننے والے طبقے تین بتائے گئے ہیں، مستکبرین (چودھری، سردار)، احبار (علماء) اور رہبان (درویش)۔ عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا:
وَ هَلْ أَفْسَدَ الدِّيْنَ إِلَّا الْمُلُوْكُ
وَ أَحْبَارُ سَوْءٍ وَ رُهْبَانُهَا
”دین کو بادشاہوں، برے علماء اور درویشوں ہی نے خراب کیا ہے۔“
یعنی جہنمی کہیں گے کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بجائے اپنے سرداروں، عالموں اور درویشوں کی اطاعت کی اور سمجھتے رہے کہ وہ صحیح کہہ رہے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ انھوں نے ہمیں سیدھے راستے پر لے جانے کے بجائے اصل راستے سے گمراہ کر دیا۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ جو شخص قرآن مجید کی آیت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث معلوم ہونے کے باوجود اس کے خلاف اپنے سادات و اکابر، یعنی کسی بادشاہ، عالم یا پیر کی اطاعت کرتا ہے، وہ قیامت کے دن یہی تمنا کرے گا جو اس آیت میں بیان ہوئی ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۶۵ تا ۱۶۷)۔