(آیت 61) مَلْعُوْنِيْنَ اَيْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا: یعنی ایسے لوگ ملعون ہیں، جہاں پائے جائیں گے انھیں گرفتار کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ان آیات میں مذکورہ احکام وقتی اور عارضی نہیں، بلکہ قرآن مجید کے دوسرے احکام کی طرح قیامت تک کے لیے ہیں۔ اب بھی حکومت پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں کا یہی علاج کرے، جو لوگ بھرے بازار سے لڑکیاں اٹھا لیں، لڑکے اٹھا کر ان سے قوم لوط کا عمل کریں، پورے معاشرے کے سامنے نکاح کے بغیر بدکار مرد عورت اکٹھے رہ کر اللہ کی حدود کو للکارتے رہیں ان کا علاج یہی ہے کہ انھیں گرفتار کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے، تاکہ دوبارہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اغوا اور ایسے دوسرے معاملات سادہ زنا کے کیس نہیں ہیں، بلکہ زنا کے علاوہ یہ فساد فی الارض کے تحت بھی آتے ہیں، جن کی سزا ایسے لوگوں کا صفایا ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: [ لَقِيْتُ عَمِّيْ وَ مَعَهُ رَايَةٌ فَقُلْتُ لَهُ أَيْنَ تُرِيْدُ؟ قَالَ بَعَثَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلٰی رَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةَ أَبِيْهِ فَأَمَرَنِيْ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَهُ وَآخُذَ مَالَهُ ][أبو داوٗد، الحدود، باب في الرجل یزني بحریمہ: ۴۴۵۷، و قال الألباني صحیح ]”میں اپنے چچا سے ملا، اس کے پاس جھنڈا تھا، میں نے اس سے کہا: ”کہاں جانے کا ارادہ ہے؟“ اس نے کہا: ”مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا ہے کہ میں اس کی گردن اتاردوں اور اس کا مال لے لوں۔“ مزید دیکھیے سورۂ مائدہ (۳۳)۔