(آیت 49) ➊ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ …: سورت کے شروع سے متبنّٰی بنانے کی رسم توڑنے کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنٰی زید رضی اللہ عنہ کے اپنی بیوی زینب کو طلاق دینے کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کے ساتھ نکاح کا ذکر آ رہا تھا۔ اس پر منافقین کی باتوں کا تذکرہ بھی ہوا اور ان کی پروا نہ کرنے کا بھی، پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منصب، آپ کی رفعتِ شان اور آپ کی ذمہ داریاں نہایت جامع انداز میں بیان فرمائیں۔ اب دوبارہ نکاح و طلاق کے کچھ مسائل کا ذکر ہوتا ہے، جن میں سے اکثر کا سابقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پیش آیا۔
➋ ” مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ “ میں ہاتھ لگانے سے مراد جماع ہے اور یہ قرآن مجید کے بیان کی پاکیزگی ہے کہ وہ اس کے لیے صریح الفاظ کے بجائے کنائے کا لفظ استعمال کرتا ہے، مثلاً ”مساس“ یا ”ملامسہ“ وغیرہ۔ اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے کہ یہ مفہوم ادا کرنے کے لیے صریح الفاظ کے بجائے کنائے کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔
➌ کسی مسلمان عورت کو اگر خاوند عقد نکاح کے بعد صحبت سے پہلے طلاق دے دے تو عورت پر کوئی عدت نہیں، جس میں خاوند رجوع کر سکتا ہو، بلکہ اگر وہ عورت چاہے تو اسی وقت دوسرا نکاح کر سکتی ہے، کیونکہ صحبت ہوئی ہی نہیں کہ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کی ضرورت ہو کہ حمل تو نہیں ٹھہرا۔ استاذ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”بعض اہلِ علم نے خلوت صحیحہ کو بھی بمنزلہ صحبت کے شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ خلوت صحیحہ کے بعد طلاق دینے سے مہر اور عدت لازم ہو گی، مگر یہ مسئلہ بظاہر اس آیت کے خلاف ہے۔“(اشرف الحواشی) آیت میں اگرچہ مومن عورتوں کا ذکر ہے، مگر اس بات پر اجماع ہے کہ یہودی یا عیسائی عورت کا بھی یہی حکم ہے۔ مومن عورتوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جب مومن عورت پر عدت نہیں، جسے مومن مرد کے نکاح میں رکھنے اور اسے رجوع کا موقع دینے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے، تو کتابیہ عورت پر تو بالاولیٰ عدت نہیں۔ (بقاعی)
➍ یہ حکم ان عورتوں کا ہے جنھیں دخول سے پہلے طلاق دی جائے، اگر نکاح کے بعد دخول سے پہلے خاوند فوت ہو جائے تو عورت پر عدت بھی ہو گی اور وہ خاوند کی وارث بھی ہو گی۔ معقل بن سنان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بروع بنت واشق رضی اللہ عنھا کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا تھا۔ [ أبوداوٗد، النکاح، باب فیمن تزوج و لم یسم لھا صداقًا حتی مات: ۲۱۱۴، و قال الألباني صحیح ]
➎ فَمَتِّعُوْهُنَّ: جس عورت کو دخول سے پہلے طلاق دی گئی ہو وہ دو حال سے خالی نہیں، یا تو نکاح کے وقت اس کے لیے مہر مقرر کیا گیا ہو گا یا نہیں۔ اگر مہر مقرر نہیں کیا گیا تو اسے مہر نہیں ملے گا اور اگر مقرر کیا گیا ہے تو نصف مہر دیا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ سامان مثلاً کپڑوں کا جوڑا وغیرہ دینا ضروری ہے، اسے ”متعہ طلاق“ کہا جاتا ہے۔ مقصد اس کا طلاق سے ہونے والی دل شکنی کا کچھ نہ کچھ مداوا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیات (۲۳۶، ۲۳۷) میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے اس کی مقدار کا اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ سہل بن سعد اور ابو اسید رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا، جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی اور آپ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو جیسے اس نے نا پسند کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو اسید سے کہا کہ وہ اس کا سامان تیار کریں اور اسے دو رازقیہ (کتان سے بنے ہوئے سفید لمبے) کپڑے بھی دے دیں۔“[ بخاري، الطلاق، باب من طلق وھل یواجہ الرجل امرأ تہ بالطلاق؟: ۵۲۵۶، ۵۲۵۷ ]
➏ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ …: لفظ ” ثُمَّ “ سے دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں، ایک یہ کہ طلاق وہ معتبر ہے جو نکاح کے بعد دی جائے، نکاح سے پہلے دی ہوئی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں، مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اسے طلاق ہے، تو طلاق نہیں ہو گی، کیونکہ یہ نکاح کے بعد نہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے (اس آیت کے حوالے سے) فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد رکھا ہے۔“ اور علی، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبدالرحمان، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابان بن عثمان، علی بن حسین، شریح، سعید بن جبیر، قاسم، سالم، طاؤس، حسن، عکرمہ، عطاء، عامر بن سعد، جابر بن زید، نافع بن جبیر، محمد بن کعب، سلیمان بن یسار، مجاہد، قاسم بن عبدالرحمان، عمرو بن ہرم اور شعبی رحمۃ اللہ علیھم سے مروی ہے کہ ایسی عورت کو طلاق نہیں ہو گی۔ [ بخاري، الطلاق، باب لا طلاق قبل النکاح، بعد الحدیث: ۵۲۶۸ ] دوسرا مسئلہ یہ کہ نکاح کے بعد اگر دخول نہیں ہوا تو خواہ کتنی مدت کے بعد طلاق ہوئی ہو، عدت نہیں ہے۔
➐ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا: اچھے طریقے سے چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر اچھے طریقے سے اسے طلاق دے کر رخصت کر دے۔ لوگوں کے سامنے اس کے عیوب یا شکایات کے دفتر نہ کھولے کہ کوئی اور بھی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ قرآن کے اس حکم سے ظاہر ہے کہ طلاق کو کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں، کیونکہ اس سے مرد نہ بھی چاہے تو اسے کوئی نہ کوئی شکوہ یا عیب بیان کرنا پڑے گا، جس سے عورت کی رسوائی ہو گی، جو اسے اچھے طریقے سے چھوڑنے کے خلاف ہے۔