(آیت 42،41) ➊ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ …: ان آیات کی پچھلی آیات کے ساتھ مناسبت بعض اہلِ علم نے یہ بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جب تمھیں زینب رضی اللہ عنھا کے نکاح جیسے معاملات میں منافقین اور اسلام کے دوسرے دشمنوں کے طعن و تشنیع کا سامنا کرنا پڑے تو ان کے ساتھ الجھنے یا انھیں برا بھلا کہنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی تسبیح کثرت سے کرو، اس سے تمھیں اطمینان عطا ہو گا، اسلام پر استقامت ملے گی اور فتنے کا دروازہ جلدی بند ہو گا۔ خصوصاً ” وَ سَبِّحُوْهُ “ کے مفہوم میں منافقین کی باتوں سے اپنے بری ہونے کا اظہار بھی شامل ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی مومن پر کسی طعن یا بہتان کا ذکر ہو تو اس سے اپنی براء ت کا اظہار کرو، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان کے متعلق فرمایا: «وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا يَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا سُبْحٰنَكَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ» [ النور: ۱۶ ]”اور کیوں نہ جب تم نے اسے سنا تو کہا ہمارا حق نہیں ہے کہ ہم اس کے ساتھ کلام کریں، تو پاک ہے، یہ بہت بڑا بہتان ہے۔“
➋ ذِكْرًا كَثِيْرًا: طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے اس آیت اور اس کے بعد کی دو آیات کی تفسیر ذکر فرمائی ہے، انھوں نے فرمایا: ”لَا يَفْرِضُ اللّٰهُ عَلٰي عِبَادِهِ فَرِيْضَةً إِلاَّ جَعَلَ لَهَا حَدًّا مَعْلُوْمًا، ثُمَّ عَذَرَ أَهْلَهَا فِيْ حَالِ عُذْرٍ، غَيْرَ الذِّكْرِ، فَإِنَّ اللّٰهَ لَمْ يَجْعَلْ لَهُ حَدًّا يَنْتَهِيْ إِلَيْهِ وَ لَمْ يَعْذُرْ أَحَدًا فِيْ تَرْكِهِ إِلَّا مَغْلُوْبًا عَلٰي عَقْلِهِ قَالَ: «فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِيٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِكُمْ» بِاللَّيْلِ وَ النَّهَارِ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، وَ فِي السَّفَرِ وَالْحَضَرِ، وَالْغِنٰي وَالْفَقْرِ، وَالسَّقَمِ وَالصِّحَّةِ، وَالسِّرِ وَالْعَلاَنِيَةِ، وعَلٰي كُلِّ حَالٍ، وَ قَالَ: «وَ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا» فَإِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِكَ صَلّٰي عَلَيْكُمْ هُوَ وَ مَلاَئِكَتُهُ قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ: «هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَ مَلٰٓىِٕكَتُهٗ» “[ طبري: ۲۸۷۶۴ ]”یعنی اللہ نے ہر فرض کی کوئی نہ کوئی حد مقرر فرمائی ہے، پھر عذر کی حالت میں وہ بھی معاف ہے، لیکن نہ اللہ کے ذکر کی کوئی حد ہے، نہ وہ کسی عذر سے معاف ہوتا ہے۔ ہاں! عقل یا ہوش نہ رہے تو الگ بات ہے، فرمایا: ”اللہ کا ذکر کرو کھڑے، بیٹھے، لیٹے“ رات اور دن میں، خشکی اور تری میں، سفر اور حضر میں، غنا اور فقر میں، صحت اور بیماری میں، پوشیدگی اور ظاہر میں، غرض ہر حال میں اللہ کا ذکر لازم ہے اور فرمایا: ”اور اس کی تسبیح کرو پہلے پہر اور پچھلے پہر“ جب تم یہ کرو گے تو اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا اور اس کے فرشتے تمھارے لیے دعائیں کریں گے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”وہی ہے جو تم پر صلاۃ بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے۔“ اللہ کا ذکر کثرت سے کرنے کے متعلق کئی احادیث اسی سورت کی آیت (۳۵): «وَ الذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ» کی تفسیر میں ذکر ہو چکی ہیں۔ اس کے متعلق اہلِ علم نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ ابن قیم رحمہ اللہ نے ”الو ابل الصیب“ میں ذکر کے ایک سو فوائد تفصیل سے ذکر فرمائے ہیں۔
➌ وَ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا: زمخشری نے فرمایا: ”پچھلی آیت میں ذکر کثیر کا حکم تھا، اب تسبیح کا حکم دیا۔ تسبیح بھی ذکر میں شامل ہے، اس کا خاص طور پر ذکر اسی طرح فرمایا جیسے فرشتوں کے ذکر کے بعد جبریل اور میکائیل کا ذکر فرمایا، تاکہ دوسرے اذکار پر اس کی فضیلت بیان کرے، کیونکہ اس کا معنی اللہ تعالیٰ کی ذات کو ان تمام صفات و افعال سے پاک بیان کرنا ہے جو اس کے لیے جائز نہیں۔ دوسرے اذکار پر اس کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے کسی آدمی کے تمام اوصاف مثلاً نماز، روزے وغیرہ کی کثرت وغیرہ پر اس بات کی فضیلت ہے کہ وہ شرک و بدعت کی نجاست اور ہر قسم کے گناہوں کی آلودگی سے پاک ہے۔ پھر پہلے اور پچھلے پہر تسبیح کا خصوصاً ذکر فرمایا، مراد تمام نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنا ہے، کیونکہ نماز دوسری چیزوں سے افضل ہے، یا فجر، مغرب اور عشاء کی نماز مراد ہے، کیونکہ ان کی ادائیگی میں زیادہ مشقت ہے۔“(کشاف) بعض اہلِ علم نے اس سے مراد فجر اور عصر لی ہے۔ تسبیح بول کر نماز مراد لینے کے لیے دیکھیے سورۂ طہ (۱۳۰)۔