(آیت 39) ➊ الَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ …: پچھلی آیت میں فرمایا تھا کہ اللہ کا یہی طریقہ ان لوگوں میں رہا ہے جو اس سے پہلے تھے۔ اب ان کی تعریف فرمائی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کا پیغام پہنچانے میں اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی طرح اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچانے اور اس کے سوا کسی سے نہ ڈرنے کی تلقین ہے، جیسا کہ فرمایا: « اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ »[ الأنعام: ۹۰ ]”یہی وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہدایت دی، سو تو ان کی ہدایت کی پیروی کر۔“
➋ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ حَسِيْبًا: ” حَسِيْبًا “ کا معنی حساب لینے والا بھی ہے اور کفایت کرنے والا بھی، جیسا کہ فرمایا: « حَسْبِيَ اللّٰهُ »[التوبۃ: ۱۲۹ ]”مجھے اللہ ہی کافی ہے۔“ پہلی صورت میں مطلب یہ ہے کہ اس اکیلے سے ڈرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر چھوٹے بڑے عمل پر محاسبہ کرنے والا ہے اور اس محاسبے کے لیے وہ اکیلا ہی کافی ہے، اسے کسی معاون کی ضرورت نہیں۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ اس کے بندے جب اس کا پیغام پہنچاتے ہیں تو دشمنوں اور مخالفوں کے مقابلے میں کفایت اور مدد کرنے کے لیے انھیں اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے۔
➌ ان آیات میں تقیہ کا رد ہے، اس لیے کہ اللہ کے پیغمبر اس کا پیغام صراحت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں، اس میں کسی کے خوف کو خاطر میں نہیں لاتے، نہ کسی سے ڈر کر اسے چھپاتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب کے سردار ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام مشرق و مغرب میں تمام بنی آدم تک پہنچایا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دین کو تمام دینوں پر غالب کر دیا۔ پھر آپ کے صحابہ یہ پیغام پہنچانے میں آپ کے بہترین وارث بنے، انھوں نے اپنی زبان، اپنے ہاتھ اور اپنی تلوار کے ساتھ آپ کا دین کل عالم تک پہنچا دیا۔ آپ کے رات دن، سفرو حضر، گھر اور باہر کے تمام اقوال و افعال اور احوال امت تک پہنچا دیے۔ اس کے بعد ہر زمانے کے لوگ یہ پیغام آگے پہنچاتے رہے، اگر ان میں سے کوئی خوف کے مارے تقیہ اختیار کرتا تو اللہ کا دین ہم تک کیسے پہنچتا اور اس کے قیامت تک باقی رہنے کی کیا صورت ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں بھی ان میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔