اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لیے یہ بشارت تاقیامت ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت۔ آیت «اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ»[ 10۔ یونس: 62 ] یعنی اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف و غم نہیں اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں «اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ»[ 41۔ فصلت: 30 ] تم ڈرو نہیں تم اداس نہ ہو تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری [ ابن ابی حاتم ] ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں، [تفسیر ابن جریر الطبری:1114:ضعیف و منقطع] سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توراۃ کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ علیہ السلام کا عامل ہو لیکن جب عیسیٰ علیہ السلام آ جائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہو جائے گا۔
اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہو گا۔ [ ابن ابی حاتم ] سدی رحمہ اللہ نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ
بھی یہی فرماتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہو جائے گا۔
قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے آیت «وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ»[ 3۔ آل عمران: 85 ] یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہو گا۔ ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لیے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے۔