سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ «سُبْحَانَ اللَّهِ» اور «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» اور بعض روایتوں میں ہے کہ «اللَّهُ أَكْبَرُ» کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کا کیا مطلب؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے پسند فرما لیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے کہ اس کا کہنا اللہ کو بھلا لگتا ہے ۔ [تفسیر ابن ابی حاتم:15/1:ضعیف]
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ کلمہ شکر ہے اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میرا شکر کیا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:151] اس کلمہ میں شکر کے علاوہ اس کی نعمتوں، ہدایتوں اور احسان وغیرہ کا اقرار بھی ہے۔ کعب احبار رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی ثنا ہے۔ ضحاک کہتے ہیں یہ اللہ کی چادر ہے۔
ایک حدیث میں بھی ایسا ہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب تم «الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» کہہ لو گے تو تم اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کر لو گے اب اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:152:ضعیف]
اسود بن سریع ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ میں نے ذات باری تعالیٰ کی حمد میں چند اشعار کہے ہیں اگر اجازت ہو تو سناؤں فرمایا: اللہ تعالیٰ کو اپنی حمد بہت پسند ہے ۔ [مسند احمد:435/3:حسن]
ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ میں سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ افضل ذکر «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» ہے اور افضل دعا «الْحَمْدُ لِلَّهِ» ہے ۔ [سنن ترمذي:3383،قال الشيخ الألباني:حسن] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن غریب کہتے ہیں۔
ابن ماجہ کی ایک حدیث ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالیٰ نے کوئی نعمت دی اور وہ اس پر «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کہے تو دی ہوئی نعمت لے لی ہوئی سے افضل ہو گی ۔ [سنن ابن ماجہ:3805،قال الشيخ الألباني:حسن]
فرماتے ہیں اگر میری امت میں سے کسی کو اللہ تعالیٰ تمام دنیا دے دے اور وہ «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کہے تو یہ کلمہ ساری دنیا سے افضل ہو گا۔
قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا دے دینا اتنی بڑی نعمت نہیں جتنی «الْحَمْدُ لِلَّهِ» کہنے کی توفیق دینا ہے اس لیے کہ دنیا تو فانی ہے اور اس کلمہ کا ثواب باقی ہی باقی ہے ۔ [سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:876،ضعیف]
جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا»[18-الكهف:46] الخ یعنی ”مال اور اولاد دنیا کی زینت ہے اور نیک اعمال ہمیشہ باقی رہنے والے، ثواب والے اور نیک امید والے ہیں“۔
ابن ماجہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص نے ایک مرتبہ کہا «يَا رَبِّ، لَكَ الْحَمْدُ كَمَا يَنْبَغِي لِجَلَالِ وَجْهِكَ وَعَظِيمِ سُلْطَانِكَ» تو فرشتے گھبرا گئے کہ ہم اس کا کتنا اجر لکھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ سے انہوں نے عرض کی کہ تیرے ایک بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے اسے کس طرح لکھیں، پروردگار نے باوجود جاننے کے ان سے پوچھا کہ اس نے کیا کہا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس نے یہ کلمہ کہا ہے، فرمایا: ”تم یونہی اسے لکھ لو میں اس اسے اپنی ملاقات کے وقت اس کا اجر دے دوں گا“ ۔ [سنن ابن ماجہ:3801،قال الشيخ الألباني:ضعيف]
قرطبی رحمہ اللہ ایک جماعت علماء سے نقل کرتے ہیں کہ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» سے بھی «الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ» افضل ہے کیونکہ اس میں توحید اور حمد دونوں ہیں۔
اور علماء کا خیال ہے کہ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» افضل ہے اس لیے کہ ایمان و کفر میں یہی فرق کرتا ہے، اس کے کہلوانے کے لیے کفار سے لڑائیاں کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ صحیح بخاری و مسلم حدیث میں ہے [صحیح بخاری:1399]
ایک اور مرفوع حدیث میں ہے کہ جو کچھ میں نے اور مجھ سے پہلے کے تمام انبیاء کرام نے کہا ہے ان میں سب سے افضل «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ» ہے ۔ [سنن ترمذي:3585،قال الشيخ الألباني:حسن]
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ افضل ذکر «لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ» ہے اور افضل دعا «الْحَمْدُ لِلَّهِ» ہے ۔ [سنن ترمذي:3383،قال الشيخ الألباني:حسن] ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔
الحمد میں «الف» «لام» استغراق کا ہے یعنی حمد کی تمام تر قسمیں سب کی سب صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ثابت ہیں۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ باری تعالیٰ تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں اور تمام ملک ہے۔ تیرے ہی ہاتھ تمام بھلائیاں ہیں اور تمام کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں ۔ [مسند احمد:346/5:ضعیف]
«رب» کہتے ہیں «مَالِكُ» اور «مُتَصَرِّفُ» کو لغت میں اس کا اطلاق سردار اور اصلاح کے لیے تبدیلیاں کرنے والے پر بھی ہوتا ہے اور ان سب معانی کے اعتبار سے ذات باری تعالیٰ کے لیے یہ خوب جچتا ہے۔
«رب» کا لفظ بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے پر نہیں کہا جا سکتا ہاں اضافت کے ساتھ ہو تو اور بات ہے جیسے «رَبُّ الدَّارِ» یعنی گھر والا وغیرہ۔ بعض کا تو قول ہے کہ اسم اعظم یہی ہے۔