سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورۃ بقرہ قرآن کا کوہان ہے اور اس کی بلندی کا یہ عالم ہے کہ اس کی ایک ایک آیت کے ساتھ اسی اسی [٨٠] فرشتے نازل ہوتے تھے اور بالخصوص آیت الکرسی تو خاص عرش تلے نازل ہوئی اور اس سورت میں شامل کی گئی۔“
سورۃ یٰسین قرآن کا دل ہے جو شخص اسے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی اور آخرت طلبی کے لئے پڑھے اسے بخش دیا جاتا ہے۔ ”اس سورت کو مرنے والوں کے سامنے پڑھا کرو“[مسند احمد:26/5:قال الشيخ الألباني:ضعیف] اس حدیث کی سند میں ایک جگہ «عن رجل» ہے تو یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس سے مراد کون ہے؟ لیکن مسند احمد ہی کی دوسری روایت میں اس کا نام ابوعثمان آیا ہے۔ [مسند احمد:26/5:قال الشيخ الألباني:ضعیف]
یہ حدیث اسی طرح ابوداؤد نسائی اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔ [سنن ابوداود:3121،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
ترمذی کی ایک ضعیف سند والی حدیث ہے کہ ہر چیز کی ایک بلندی ہوتی ہے اور قرآن پاک کی بلندی سورۃ بقرہ ہے۔ اس سورت میں ایک آیت ہے جو تمام آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت ”آیت الکرسی“ ہے۔ [سنن ترمذي:2878،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
مسند احمد، صحیح مسلم، ترمذی اور نسائی میں حدیث ہے کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ۔ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔ [صحیح مسلم:780] امام ترمذی اسے حسن صحیح بتلاتے ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ [ابو عبیدہ فی فضائل القرآن:34/9:ضعیف] اس حدیث کے ایک راوی کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ تو ثقہ بتاتے ہیں لیکن امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ ان کی حدیث کو منکر کہتے ہیں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی طرح کا قول منقول ہے۔ اسے نسائی نے «عمل الیوم واللیلہ» میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔ [نسائی في السنن الكبري:10800،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابن مردویہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی کو ایسا نہ پاؤں کہ وہ پیر پر پیر چڑھائے پڑھتا چلا جائے لیکن سورۃ بقرہ نہ پڑھے۔ سنو! جس گھر میں یہ مبارک سورت پڑھی جاتی ہے وہاں سے شیطان بھاگ کھڑا ہوتا ہے، سب گھروں میں بدترین اور ذلیل ترین گھر وہ ہے جس میں کتاب اللہ کی تلاوت نہ کی جائے“ امام نسائی نے «عمل الیوم واللیلہ» میں بھی اسے وارد کیا ہے۔ [نسائی في الیو واللية:969،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
مسند دارمی میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ ہر چیز کی اونچائی ہوتی ہے اور قرآن کی اونچائی سورۃ بقرہ ہے۔ ہر چیز کا ماحصل ہوتا ہے اور قرآن کا ماحصل مفصل سورتیں ہیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ جو شخص سورۃ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیت الکرسی اور دو آیتیں اس کے بعد کی اور تین آیتیں سب سے آخر کی، یہ سب دس آیتیں رات کے وقت پڑھ لے اس گھر میں شیطان اس رات نہیں جا سکتا اور اسے اور اس کے گھر والوں کو اس دن شیطان یا کوئی اور بری چیز ستا نہیں سکتی۔ یہ آیتیں مجنون پر پڑھی جائیں تو اس کا دیوانہ پن بھی دور ہو جاتا ہے۔ [سنن دارمی:448/2:ضعیف]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”جس طرح ہر چیز کی بلندی ہوتی ہے، قرآن کی بلندی سورۃ بقرہ ہے جو شخص رات کے وقت اسے اپنے گھر میں پڑھے تین راتوں تک شیطان اس گھر میں نہیں جا سکتا اور دن کو اگر گھر میں پڑھ لے تو تین دن تک شیطان اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا۔“[طبرانی کبیر:5864:ضعیف] [طبراني۔ ابن حبان۔ ابن مردويه]
ترمذی۔ نسائی اور ابن ماجہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر ایک جگہ بھیجا اور اس کی سرداری آپ نے انہیں دی جنہوں نے فرمایا تھا کہ مجھے سورۃ بقرہ یاد ہے، اس وقت ایک شریف شخص نے کہا میں بھی اسے یاد کر لیتا لیکن ڈرتا ہوں کہیں ایسا نہ ہو کہ میں اس پر عمل نہ کر سکوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن سیکھو، قرآن پڑھو جو شخص اسے سیکھتا ہے، پڑھتا ہے پھر اس پر عمل بھی کرتا ہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بھرا ہوا برتن جس کی خوشبو ہر طرف مہک رہی ہے۔ اسے سیکھ کر سو جانے والے کی مثال اس برتن کی سی ہے جس میں مشک تو بھرا ہوا ہے لیکن اوپر سے منہ بند کر دیا گیا ہے۔ [سنن ترمذي:2876،قال الشيخ الألباني:ضعیف] (امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن کہتے ہیں اور مرسل روایت بھی ہے)۔ «واللہ اعلم»
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رات کو سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کی، ان کا گھوڑا جو ان کے پاس ہی بندھا ہوا تھا، اس نے اچھلنا کودنا اور بدکنا شروع کیا۔ آپ نے قرأت چھوڑ دی گھوڑا بھی سیدھا ہو گیا۔ آپ نے پھر پڑھنا شروع کیا۔ گھوڑے نے بھی پھر بدکنا شروع کیا۔ آپ نے پھر پڑھنا موقوف کیا۔ گھوڑا بھی ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ تیسری مرتبہ بھی یہی ہوا چونکہ ان کے صاحبزادے یحییٰ گھوڑے کے پاس ہی لیٹے ہوئے تھے اس لئے ڈر معلوم ہوا کہ کہیں بچے کو چوٹ نہ آ جائے، قرآن کا پڑھنا بند کر کے اسے اٹھا لیا۔ آسمان کی طرف دیکھا کہ جانور کے بدکنے کی کیا وجہ ہے؟ صبح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ کر واقعہ بیان کرنے لگے آپ سنتے جاتے اور فرماتے جاتے ہیں پھر ”اسید پڑھے چلے جاؤ“، سیدنا اسید رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! تیسری مرتبہ کے بعد تو یحییٰ کی وجہ سے میں نے پڑھنا بالکل بند کر دیا۔ اب جو نگاہ اٹھی تو دیکھتا ہوں کہ ایک نورانی چیز سایہ دار ابر کی طرح ہے اور اس میں چراغوں کی طرح کی روشنی ہے بس میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اوپر کو اٹھ گئی۔ آپ نے فرمایا ”جانتے ہو یہ کیا چیز تھی؟“، یہ فرشتے تھے جو تمہاری آواز کو سن کر قریب آ گئے تھے اگر تم پڑھنا موقوف نہ کرتے تو وہ صبح تک یونہی رہتے اور ہر شخص انہیں دیکھ لیتا، کسی سے نہ چھپتے۔ [صحیح بخاری:5018] یہ حدیث کئی کتابوں میں کئی سندوں کے ساتھ موجود ہے۔ «واللہ اعلم»
اس کے قریب قریب واقعہ سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کا ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ گزشتہ رات ہم نے دیکھا، ساری رات ثابت رضی اللہ عنہ کا گھر نور کا بقعہ بنا رہا اور چمکدار روشن چراغوں سے جگمگاتا رہا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید انہوں نے رات کو سورۃ بقرہ پڑھی ہو گی۔“ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ”سچ ہے رات کو میں سورۃ بقرہ کی تلاوت میں مشغول تھا۔“[ابو عبیدہ فی فضائل القرآن:34/12:ضعیف] اس کی اسناد تو بہت عمدہ ہے مگر اس میں ابہام ہے اور یہ مرسل بھی ہے۔ «واللہ اعلم»