تفسير ابن كثير



مسئلہ : تعوذ پڑھنے کا وقت اور مقام

امام شافعی رحمہ اللہ املا میں لکھتے ہیں کہ اعوذ زور سے پڑھے اور اگر پوشیدہ پڑھے تو بھی کوئی حرج نہیں اور ام میں لکھتے ہیں کہ بلند اور آہستہ پڑھنے میں اختیار ہے اس لئے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوشیدہ پڑھنا اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اونچی آواز سے پڑھنا ثابت ہے۔

پہلی رکعت کے سوا اور رکعتوں میں اعوذ پڑھنے میں امام شافعی کے دو قول ہیں۔ ایک مستحب ہونے اور دوسرا مستحب نہ ہونے کا اور ترجیح دوسرے قول کو ہی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

صرف «اعُوذُ بِاللّهِ مِن الشِّیطانِ الرَّجِیمِ» کہہ لینا امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم کے نزدیک تو کافی ہے لیکن بعض کہتے ہیں «أَعُوذُ بِاللَّهِ السَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ الشَّيْطَانِ إِنَّاللَّهِ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ» پڑھے۔ ثوری اور اوزاعی کا یہی مذہب ہے۔ بعض کہتے ہیں «فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّ‌جِيمِ» پڑھے تاکہ آیت کے پورے الفاظ پر عمل ہو جائے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث پر عمل ہو جائے جو پہلے گزر چکی۔ لیکن جو صحیح حدیثیں پہلے گزر چکیں وہی اتباع میں اولیٰ ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

نماز میں اعوذ کا پڑھنا ابوحنیفہ اور محمد رحمہ اللہ علیہم کے نزدیک تو تلاوت کے لئے ہے اور ابویوسف کے نزدیک نماز کے لئے ہے، تو مقتدی کو بھی پڑھ لینا چاہئے اگرچہ وہ قرأت نہیں پڑھے گا اور عید کی نماز میں بھی پہلی تکبیر کے بعد پڑھ لینا چاہئے۔ جمہور کا مذہب ہے کہ عید کی تکبیر کل کہہ کر پھر اعوذ پڑھے پھر قرأت پڑھے۔

اعوذ میں عجیب و غریب فوائد ہیں۔ واہی تباہی باتوں سے منہ میں جو ناپاکی ہوتی ہے وہ اس سے دور ہو جاتی ہے اور منہ کلام اللہ کی تلاوت کے قابل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اس میں اللہ تعالیٰ سے امداد طلب کرنی ہے اور اس کی عظیم الشان قدرتوں کا اقرار کرنا ہے اور اس باطنی کھلے ہوئے دشمن کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔ احسان اور سلوک سے اس کی دشمنی دفع ہو سکتی ہے جیسے کہ قرآن پاک کی ان تین آیتوں میں ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہیں۔ اور جگہ ارشاد الہٰی ہے «إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ وَكَفَىٰ بِرَ‌بِّكَ وَكِيلًا» [17-الإسراء:65] ‏‏‏‏، یعنی ” میرے خاص بندوں پر تیرا کوئی غلبہ نہیں “۔ رب کی وکالت (‏‏‏‏ذمہ داری) کی نفی ہے۔ اللہ تعالی نے دشمنان اسلام کے مقابلہ میں اپنے پاک فرشتے بھیجے اور انہیں نیچا دکھایا۔ یہ یاد رکھنے کے قابل امر ہے جو مسلمان کافروں کے ہاتھ سے مارا جائے، وہ شہید ہے لیکن جو اس باطنی دشمن شیطان کے ہاتھ سے مارا جائے وہ راندۂ درگاہ ہے۔ جس پر کفار غالب آ جائیں وہ اجر پاتا ہے لیکن جس پر شیطان غالب آ جائے وہ ہلاک و برباد ہوتا ہے۔ چونکہ شیطان انسان کو دیکھتا ہے اور انسان اسے نہیں دیکھ سکتا، اس لئے قرآنی تعلیم ہوئی کہ اس کے شر اس کی یاد کے ذریعہ پناہ چاہو اسے دیکھتا ہے اور یہ اسے نہیں دیکھ سکتا۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.