جب یہ سورت اتری تو جبرائیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ کا آپ کو حکم ہوا ہے کہ یہ سورت ابی کو سناؤ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے یہ ذکر کیا تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ ! کیا وہاں میرا ذکر کیا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ہاں“، تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ [مسند احمد:489/3،صحيح لغيره ]
مسند ہی کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا تھا یا رسول اللہ! کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا؟ [صحيح بخاري:3809] یہ حدیث بخاری مسلم ترمذی اور نسائی میں بھی ہے۔
مسند احمد کی اور روایت میں ہے کہ جس وقت سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے جب یہ واقعہ بیان کیا اس وقت سیدنا عبدالرحمن بن ابزی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تو تم اے ابومنذر بہت ہی خوش ہوئے ہو گے، کہا: ہاں خوش کیوں نہ ہوتا اللہ خود فرماتا ہے «قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ»[10-يونس:58]
یعنی ” کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ساتھ لوگ خوش ہوا کریں، یہ ان کے جمع کیے ہوئے سے بہت ہی بہتر ہے۔“[مسند احمد:123/5،صحيح ]
اور حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کے سامنے پڑھی اس میں یہ آیت بھی تھی «وَلَوْ أَنَّ اِبْن آدَم سَأَلَ وَادِيًا مِنْ مَال فَأُعْطِيَهُ لَسَأَلَ ثَانِيًا وَلَوْ سَأَلَ ثَانِيًا فَأُعْطِيَهُ لَسَأَلَ ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأ جَوْف اِبْن آدَم إِلَّا التُّرَاب وَيَتُوب اللَّه عَلَى مَنْ تَابَ وَإِنَّ ذَات الدِّين عِنْد اللَّه الْحَنِيفِيَّة غَيْر الْمُشْرِكَة وَلَا الْيَهُودِيَّة وَلَا النَّصْرَانِيَّة وَمَنْ يَفْعَل خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ» یعنی اگر انسان مجھ سے ایک جنگل بھر کر سونا مانگے اور میں اسے دے دوں تو پھر دوسرا مانگے گا اور دوسرے کو بھی دے دوں تو یقیناً تیسرے کی طلب کرے گا انسان کے پیٹ کو سوا مٹی کے کوئی چیز نہیں بھر سکتی، جو توبہ کرے اللہ تعالیٰ بھی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، اللہ کے نزدیک دیندار وہ ہے جو یک طرفہ ہو کر صرف اس کی عبادت کرے نہ وہ مشرک ہو، نہ یہودی ہو، نہ نصرانی ہو جو شخص بھی کوئی نیک کام کرے اللہ کے ہاں اس کی ناقدری نہ کی جائے گی۔ [مسند احمد:132/5:قال الشيخ الألباني:حسن] ترمذی میں بھی یہ روایت ہے اور اسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن صحیح کہا ہے
طبرانی میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ میں تمہارے سامنے قرآن پڑھوں تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول ! میں اللہ پر ایمان لایا، آپ کے ہاتھ پر اسلام لایا، آپ ہی سے علم دین حاصل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی فرمایا اس پر سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللہ! کیا میرا وہاں ذکر کیا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے نام اور نسب کے ساتھ «لْمَلَإِ الْأَعْلَى»، میں تیرا ذکر ہوا۔“ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا پھر پڑھئے۔ [طبراني اوسط:447،ضعيف] یہ روایت اس طریقہ سے غریب ہے اور ثابت وہ ہے جو پہلے بیان ہوا۔
یہ یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سورت کو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کے سامنے پڑھنا یہ ان کی ثابت قدمی اور ان کے ایمان کی زیادتی کے لیے تھا۔
مسند احمد، نسائی، ابوداؤد اور مسلم میں ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت سن کر سیدنا ابی رضی اللہ عنہ بگڑ بیٹھے تھے کیونکہ انہوں نے جس طرح اس سورت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اسی طرح نہیں پڑھا تھا تو غصے میں آ کر انہیں لے کر خدمت نبوی میں حاضر ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے قرآن سنا اس نے اپنے طریقے سے اس نے اپنے طور پر پڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دونوں نے درست پڑھا“، سیدنا ابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں تو اس قدر شک و شبہ میں پڑ گیا کہ جاہلیت کے زمانہ کا شک سامنے آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حالت دیکھ کر میرے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا جس سے میں پسینہ پسینہ ہو گیا اور اس قدر مجھ پر خوف طاری ہوا کہ گویا میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سن! جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا: اللہ کا حکم ہے کہ قرآن ایک ہی قرأت پر اپنی امت کو پڑھاؤ، میں نے کہا میں اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر اور بخشش و مغفرت چاہتا ہوں، پھر مجھے دو طرح کے قرأتوں کی اجازت ہوئی لیکن میں پھر بھی زیادہ طلب کرتا رہا یہاں تک کہ سات قرأتوں کی اجازت ملی۔ [صحيح مسلم:280]
یہ حدیث بہت سی سندوں اور مختلف الفاظ سے تفسیر کے شروع میں پوری طرح بیان ہو چکی ہے , اب جبکہ یہ مبارک سورت نازل ہوئی اور اس میں آیت «رَسُول مِنْ اللَّه يَتْلُو صُحُفًا مُطَهَّرَة ٭ فِيهَا كُتُبٌ قِيمَةٌ» بھی نازل ہوئی تھی اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ بطور پہنچا دینے کے اور ثابت قدمی عطا فرمانے کے اور آگاہ کرنے کے پڑھ کر سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کو سنا دیں کسی کو یہ خیال نہ رہے کہ بطور سیکھنے کے اور یاد رہنے کے آپ نے یہ سورۃ ان کے پاس تلاوت کی تھی۔ «والله اعلم»
پس جس طرح آپ نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کے اس دن کے شک و شبہ کے دفع کرنے کے لیے جو انہیں مختلف قرأت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جائز رکھنے پر پیدا ہوا تھا ان کے سامنے یہ سورت تلاوت کر کے سنائی، ٹھیک اسی طرح سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے بھی حدیبیہ والے سال صلح کے معاملہ پر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے بہت سے سوالات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے تھے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ شریف جائیں گے اور طواف کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں یہ تو ضرور کہا تھا لیکن یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال یہ ہو گا یقیناً وہ وقت آ رہا ہے کہ تو وہاں پہنچے گا اور طواف کرے گا“، اب حدیبیہ سے لوٹتے ہوئے سورۃ فتح نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور یہ سورت پڑھ کر سنائی جس میں یہ آیت بھی ہے «لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِد الْحَرَام إِنْ شَاءَ اللَّه آمَنِينَ» یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کا خواب سچا کر دکھایا یقینا تمہارا داخلہ مسجد حرام میں امن و امان کے ساتھ ہو گا، جیسے کہ پہلے اس کا بیان بھی گزر چکا ہے۔ [صحيح بخاري:2731 ]
حافظ ابونعیم اپنی کتاب اسماء صحابہ میں حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب سورۃ لم یکن کی قرأت سنتا ہے تو فرماتا ہے میرے بندے خوش ہو جا مجھے اپنی عزت کی قسم میں تجھے جنت میں ایسا ٹھکانا دوں گا کہ تو خوش ہو جائے گا۔ [ابونعيم في معرفة الصحابة:350/1،ضعيف جدا] یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ میں تجھے دنیا اور آخرت کے احوال میں سے کسی حال میں نہ بھولوں گا۔ [اسد الغابة لابن الأثير:325/5،ضعيف جدا]