سیدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ ایک دن بیٹھے بیٹھے آپس میں یہ تذکرے کر رہے تھے کہ کوئی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دریافت کرے کہ اللہ کو سب سے محبوب عمل کونسا ہے؟ مگر ابھی کوئی کھڑا بھی نہ ہوا تھا کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد پہنچا اور ہم میں سے ایک ایک کو بلا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا، جب ہم سب جمع ہو گئے تو آپ نے اس پوری سورت کی تلاوت کی۔ [مسند احمد:452/5:صحیح] اس میں ذکر ہے کہ جہاد سب سے زیادہ محبوب الٰہی ہے۔
ابن ابی حاتم کی اس حدیث میں ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہوئے ڈرے اور اس میں یہ بھی ہے کہ جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری سورت پڑھ کر سنائی تھی اسی طرح اس روایت بیان کرنے والے صحابی نے تابعی کو پڑھ کر سنائی اور تابعی نے اپنے شاگرد کو اور اس نے اپنے شاگرد کو اسی طرح آخر تک اور روایت میں ہے کہ ہم نے کہا تھا اگر ہمیں ایسے عمل کی خبر ہو جائے تو ہم ضرور اس پر عامل ہو جائیں، [سنن ترمذي:3309،قال الشيخ الألباني:صحیح]
مجھ سے میرے استاد شیخ مسند ابوالعباس احمد بن ابوطالب حجاز نے بھی اپنی سند سے یہ حدیث بیان کی ہے اور اس میں بھی مسلسل ہر استاد کا اپنے شاگرد کو یہ سورت پڑھ کر سنانا مروی ہے یہاں تک کہ میرے استاد نے بھی اپنے استاد سے اسے سنا ہے لیکن چونکہ وہ خود امی تھے اور اسے یاد کرنے کا انہیں وقت نہیں ملا انہوں نے مجھے پڑھ کر نہیں سنائی، لیکن الحمد اللہ میرے دوسرے استاد حافظ کبیر ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان نے اپنی سند سے یہ حدیث مجھے پڑھاتے وقت یہ سورت بھی پوری پڑھ کر سنائی۔