تفسير ابن كثير



فوائد احادیث :

اب اس حدیث کے فائدوں پر نظر ڈالئے۔ اول: اس حدیث میں لفظ «صلوة» یعنی نماز کا اطلاق ہے اور مراد اس سے قرأۃ ہے جیسے کہ قرآن میں اور جگہ پر ہے «وَلَا تَجْهَرْ‌ بِصَلَاتِكَ وَلَا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا» [17-الإسراء:110] ‏‏‏‏، یعنی ” اپنی نماز (‏‏‏‏یعنی قرأۃ) کو نہ تو بہت بلند آواز سے پڑھو نہ بہت پست آواز سے بلکہ درمیانی آواز سے پڑھا کرو “۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں صراحت سے مروی ہے کہ یہاں «صلوٰة» سے مراد «قرأة» ہے [صحیح بخاری:4722] ‏‏‏‏ اور اسی طرح مندرجہ بالا حدیث میں بھی «قرأة» کو «صلوٰة» کہا ہے۔ اس سے نماز میں «قرأة» کی جو عظمت ہے وہ معلوم ہوتی ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ قرأۃ نماز کا اعلی رکن ہے اس لئے کہ عبادت کا مطلق نام لیا گیا اور اس کے ایک جزو یعنی قرأۃ کا ذکر کیا گیا۔ یہ بھی خیال رہے کہ اس کے برخلاف ایسا بھی ہوا ہے کہ قرأۃ کا اطلاق کیا گیا اور مراد نماز لی گئی۔ فرمان ہے «وَقُرْ‌آنَ الْفَجْرِ‌ إِنَّ قُرْ‌آنَ الْفَجْرِ‌ كَانَ مَشْهُودًا» [17-الإسراء:78] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” صبح کے قرآن پر فرشتے حاضر کئے جاتے ہیں “۔ [صحیح بخاری:648] ‏‏‏‏ یہاں مراد قرآن سے نماز ہے۔

صحیحین کی حدیث میں ہے کہ فجر کی نماز کے وقت رات کے اور دن کے فرشتے جمع ہو جاتے ہیں ۔ [صحیح بخاری:649] ‏‏‏‏ ان آیات و احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں قرأۃ کا پڑھنا ضروری ہے اور علماء کا بھی اس پر اتفاق ہے۔

دوم: اس میں اختلاف ہے کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ہی ضروری ہے؟ یا قرآن میں سے جو کچھ پڑھ لے وہی کافی ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی وغیرہ تو کہتے ہیں کہ اسی کا پڑھنا متعین نہیں۔ بلکہ قرآن میں سے جو کچھ پڑھ لے گا کافی ہو گا۔ ان کی دلیل آیت «فَاقْرَ‌ءُوا مَا تَيَسَّرَ‌ مِنَ الْقُرْ‌آنِ» [74-المدثر:20] ‏‏‏‏ ہے یعنی ” قرآن میں سے جو آسان ہو پڑھ لو “ اور صحیحین کی حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جو نماز جلدی جلدی پڑھ رہا تھا، فرمایا: جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ۔ پھر جو قرآن میں سے تجھے آسان نظر آئے پڑھ [صحیح بخاری:757] ‏‏‏‏، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس شخص کو یہ فرمانا اور سورہَ فاتحہ کا تعین نہ کرنا بتا رہا ہے، جو کچھ قرآن پڑھ لے، کافی ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ سورہَ فاتحہ ہی کا پڑھنا ضروری ہے اور اس کے پڑھے بغیر نماز نہ ہو گی۔ ان کے علاوہ اور سب ائمہ کرام کا یہی قول ہے امام مالک، امام شافعی، امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ علیہم اور ان کے سب کے سب شاگر وغیرہ اور جمہور علماء کرام کا یہی فرمان ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث شریف ہے جو اللہ کے رسول نے، اللہ تعالیٰ ان پر درود و رحمت بھیجے، بیان فرمائی ہے کہ جو شخص نماز پڑھے خواہ کوئی نماز ہو اور اس میں ام القرآن نہ پڑھے، وہ نماز ناقص ہے، پوری نہیں ۔ [صحیح مسلم:395] ‏‏‏‏

اسی طرح ان بزرگوں کی یہ دلیل بھی ہے جو صحیحین میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص سورۂ فاتحہ کو نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہے ۔ [صحیح بخاری:756] ‏‏‏‏

صحیح ابن خزیمہ اور صحیح ابنِ حبان میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ نماز نہیں ہوتی جس میں ام القرآن نہ پڑھی جائے ۔ [مسند احمد:457/2:صحیح] ‏‏‏‏

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔ ہمیں یہاں پر مناظرانہ پہلو اختیار کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ بہت لمبی بحثیں ہیں۔ ہم نے مختصراً ان بزرگوں کی دلیلیں بیان کر دیں (‏‏‏‏صحیح اور مطابق حدیث دوسرا قول ہی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم)

اب یہ بھی سن لیجئے کہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا تو یہ مذہب ہے کہ سورہَ فاتحہ کا ہر ہر رکعت میں پڑھنا واجب ہے۔ اور لوگ کہتے ہیں اکثر رکعتوں میں پڑھنا واجب ہے۔ حسن رحمہ اللہ اور اکثر بصرہ کے لوگ کہتے ہیں کہ نمازوں میں سے کسی ایک رکعت میں اس کا پڑھ لینا واجب ہے، اس لئے کہ حدیث میں نماز کا ذکر مطلق ہے۔

ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان کے ساتھی ثوری اور اوزاعی کہتے ہیں اس کا پڑھنا متعین ہی نہیں بلکہ اور کچھ بھی پڑھ لے تو کافی ہے کیونکہ قرآن میں «فَاقْرَ‌ءُوا مَا تَيَسَّرَ‌ مِنَ الْقُرْ‌آنِ» [73-المزمل:20] ‏‏‏‏ کا لفظ ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

لیکن یہ خیال رہے کہ ابن ماجہ کی حدیث میں ہے کہ جو شخص فرض وغیرہ نماز کی ہر ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ اور سورت نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ۔ [سنن ابن ماجه:839،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ البتہ اس حدیث کی صحت میں نظر ہے اور ان سب باتوں کی تفصیل کا موقعہ احکام کی بڑی بڑی کتابیں ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» (‏‏‏‏صحیح اور مطابق حدیث پہلا قول ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» مترجم)

سوم: مقتدی پر سورہَ فاتحہ کے واجب ہونے کے مسئلہ میں علماء کے تین قول ہیں۔ ایک تو یہ کہ سورہَ فاتحہ کا پڑھنا جس طرح امام پر واجب ہے اسی طرح مقتدی پر بھی واجب ہے۔ اس کی دلیل وہ عام حدیثیں ہیں جو ابھی ابھی دوسرے فائدے کے بیان میں گزر چکیں۔

دوسرا یہ کہ سرے سے مقتدی کے ذمہ قرأۃ واجب ہی نہیں، نہ یہ سورت، نہ کچھ اور نہ جہری نماز میں، نہ سری نماز میں۔ ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا امام ہو تو امام کی قرأت اس کی قرأت اس کی قرأت ہے [سنن ابن ماجه:850،قال الشيخ زبیر علی زئی:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن یہ روایت ضعیف ہے اور یہ خود سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے قول سے مروی ہے۔ گو اس مرفوع حدیث کی سندیں بھی ہیں لیکن کوئی سند صحیح نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

تیسرا قول یہ ہے کہ جن نمازوں میں امام آہستگی سے قرأۃ پڑھے، ان میں تو مقتدی پر قرأۃ واجب ہے لیکن جن نمازوں میں اونچی قرأۃ پڑھی جاتی ہے “ ان میں واجب نہیں۔ ان کی دلیل صحیح مسلم والی حدیث ہے جس میں ہے کہ امام اسی لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس کی تکبیر سن کر تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تم چپ رہو ۔ [صحیح مسلم:404] ‏‏‏‏ سنن میں بھی یہ حدیث ہے۔ امام مسلم نے اس کی تصحیح کی ہے۔ امام شافعی کا پہلا قول بھی یہی ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت ہے۔ (‏‏‏‏صحیح اور مطابق حدیث اول قول ہے)۔

ابوداؤد، ترمذی، نسائی وغیرہ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقتدیوں کو فرمایا کہ تم سوائے سورۃ فاتحہ کے اور کچھ نہ پڑھو، اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔ [سنن ابوداود:824،قال الشيخ الألباني:صحیح بالشواهد] ‏‏‏‏ (‏‏‏‏مترجم)

ہماری غرض ان مسائل کو یہاں پر بیان کرنے سے یہ ہے کہ سورہ فاتحہ کے ساتھ احکام کا جس قدر تعلق ہے کسی اور سورت کے ساتھ نہیں۔ مسند بزار میں حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں، جب تم بستر پر لیٹو اور سورۂ فاتحہ اور سورۂ قل ھو اللہ پڑھ لو تو موت کے سوا ہر چیز سے امن میں آ جاؤ گے ۔ [سلسلة احادیث ضعیفه البانی:5062] ‏‏‏‏



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.