سیدنا زر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا قرآن میں جو لفظ «من ماء غیر اسن» ہے یہ ( «اٰسن») لفظ ہے یا ( «اَسن») تو آپ نے فرمایا: گویا تو نے باقی سارا قرآن سمجھ لیا ہے؟ اس نے کہا: میں مفصل کی تمام سورتوں کو ایک رکعت میں پڑھ لیا کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: پھر تو جیسے شعر جلدی جلدی پڑھے جاتے ہیں، اسی طرح تو قرآن کو بھی جلدی جلدی پڑھتا ہو گا۔ افسوس! مجھے خوب یاد ہے کہ مفصل کی ابتدائى كون كون سى دو برابر والى سورتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ملایا کرتے تھے۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں مفصل کی سب سے پہلی سورت یہی سورۃ الرحمن ہے۔ (مسند احمد:412/1،حسن)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے مجمع میں ایک روز تشریف لائے اور سورۃ الرحمن کی اول سے آخرت تک تلاوت فرمائی- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم چپ چاپ سنتے رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے تو جنات ہی جواب دینے میں اچھے رہے، میں نے جب ان کے سامنے اس سورت کی تلاوت کی تو میں جب کبھی آیت «فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ» (55-الرحمن:13) پڑھتا تو وہ کہتے «لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْد» یعنی ” اے ہمارے پروردگار! ہم تیری نعمتوں میں سے کسی نعمت کو نہیں جھٹلاتے تیرے ہی لیے تمام تعریفیں سزاوار ہیں “۔ (سنن ترمذي:3291،قال الشيخ الألباني:حسن) یہ حدیث غریب ہے۔
اور یہی روایت ابن جریر میں بھی مروی ہے اس میں ہے کہ یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت پڑھی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی تلاوت کی گئی اس وقت صحابہ رضی اللہ عنہم کی خاموشی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور جواب کے الفاظ یہ ہیں «لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ» ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:582/11)