تفسير ابن كثير



مقام نزول:

سورۃ بقرہ ساری کی ساری مدینہ شریف میں نازل ہوئی ہے اور شروع شروع جو سورتیں نازل ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے البتہ اس کی ایک آیت «وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ» [2-البقرہ:281] ‏‏‏‏ یہ سب سے آخر نازل شدہ بتائی جاتی ہے یعنی قرآن کریم میں سب سے آخر یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ ممکن ہے کہ نازل بعد میں ہوئی ہو لیکن اسی میں ہے۔ اور اسی طرح سود کی حرمت کی آیتیں بھی آخر میں نازل ہوئی ہیں۔ خالد بن معدان سورہ بقرہ کو «فسطاط القرآن» یعنی قرآن کا خیمہ کہا کرتے تھے۔ بعض علماء کا فرمان ہے کہ اس میں ایک ہزار خبریں ہیں اور ایک ہزار حکم ہیں اور ایک ہزار کاموں سے ممانعت ہے۔ اس کی آیتیں دو سو ستاسی ہیں۔ اس کے کلمات چھ ہزار دو سو اکیس ہیں۔ اس کے حروف ساڑھے پچیس ہزار ہیں۔ «واللہ اعلم»

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ سورت مدنی ہے۔ [الدر المنشور للسیوطی:47/1] ‏‏‏‏

عبداللہ بن زبیر اور خارجہ بن ثابت رضی اللہ عنہما اور بہت سے آئمہ علماء اور مفسرین سے بھی بلا اختلاف یہی مروی ہے۔

ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے کہ سورۃ بقرہ، سورۃ آل عمران، سورۃ النساء وغیرہ نہ کہا کرو بلکہ یوں کہو کہ وہ سورت جس میں بقرہ کا ذکر ہے۔ وہ سورت جس میں آل عمران کا بیان ہے اور اسی طرح قرآن کی سب سورتوں کے نام لیا کرو۔ [بیهقی فی شعب الایمان:2582:باطل و منکر] ‏‏‏‏ لیکن یہ حدیث غریب ہے بلکہ اس کا فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونا ہی صحیح نہیں۔ اس کے راوی عیسیٰ بن میمون ابوسلمہ خواص ضعیف ہیں۔ ان کی روایت سے سند نہیں لی جا سکتی۔ اس کے برخلاف بخاری و مسلم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بطن وادی سے شیطان پر کنکر پھینکے۔ بیت اللہ ان کی بائیں جانب تھا اور منیٰ دائیں طرف۔ اور فرمایا اسی جگہ سے کنکر پھینکے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن پر سورۃ بقرہ اتری ہے۔ [صحیح بخاری:1747] ‏‏‏‏ گو اس حدیث سے صاف ثابت ہو گیا ہے کہ سورۃ بقرہ وغیرہ کہنا جائز ہے لیکن مزید سنئے۔

ابن مردویہ میں ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں کچھ سستی دیکھی تو انہیں «يا اصحاب سورة بقره» کہہ کر پکارا۔ غالباً یہ غزوہ حنین والے دن کا ذکر ہے جب لشکر کے قدم اکھڑ گئے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں درخت والو، یعنی اے بیعت الرضوان کرنے والو اور اے سورۃ بقرہ والو [طبرانی کبیر:133/17:ضعیف] ‏‏‏‏ کہہ کر پکارا تھا تاکہ ان میں خوشی اور دلیری پیدا ہو۔ چنانچہ اس آواز کے ساتھ ہی صحابہ ہر طرف سے دوڑ پڑے۔ مسیلمہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا، اس کے ساتھ لڑنے کے وقت بھی جب قبیلہ بنوحنفیہ کی چیرہ دستیوں نے پریشان کر دیا اور قدم ڈگمگا گئے تو صحابہ نے اسی طرح لوگوں کو پکارا «يا اصحاب سورة البقره» اے سورۃ بقرہ والو! اس آواز پر سب کے سب جمع ہو گئے اور جم کر لڑے یہاں تک کہ ان مرتدوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے لشکر کو فتح دی۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سب صحابہ سے خوش ہو۔



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.