[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] فرمایا اتر جاؤ، تمھارا بعض بعض کا دشمن ہے اور تمھارے لیے زمین میں ایک وقت تک ایک ٹھکانا اور کچھ (زندگی کا) سامان ہے۔ [24] فرمایا تم اسی میں زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے نکالے جاؤ گے۔ [25] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک [24] فرمایا تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے پھر نکالے جاؤ گے [25]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] (خدا نے) فرمایا (تم سب بہشت سے) اتر جاؤ (اب سے) تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے لیے ایک وقت (خاص) تک زمین پر ٹھکانہ اور (زندگی کا) سامان (کر دیا گیا) ہے [24] (یعنی) فرمایا کہ اسی میں تمہارا جینا ہوگا اور اسی میں مرنا اور اسی میں سے (قیامت کو زندہ کر کے) نکالے جاؤ گے [25]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 24، 25،
سفر ارضی کے بارے میں یہودی روایات ٭٭
بعض کہتے ہیں یہ خطاب آدم، حواء، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے -بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے -یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد آدم علیہ السلام ہیں اور شیطان ملعون۔ جیسے سورۃ طہٰ میں ہے آیت «اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعاً»[20-طه:123] حواء آدم علیہ السلام کے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آ گیا۔
مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدم کہاں اترے؟ شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن یا حدیث میں ضرور ہوتا۔ کہہ دیا گیا کہ اب تمہارے قرار کی جگہ زمین ہے، وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے۔
جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے ہی لکھا ہوا موجود ہے۔ اسی زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دبائے جاؤ گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہو گا۔ جیسے فرمان ہے «مِنْهَا خَلَقْنَـكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى»[20-طه:55] پس اولاد آدم کے جینے کی جگہ بھی یہی اور مرنے کی جگہ بھی یہی، قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سے، پھر بدلہ دیئے جائیں گے۔