[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اے آدم ! تو اور تیری بیوی اس جنت میں رہو، پس دونوں کھائو جہاں سے چاہو اور اس درخت کے قریب مت جائو کہ دونوں ظالموں سے ہو جاؤ گے۔ [19] پھر شیطان نے ان دونوں کے لیے وسوسہ ڈالا، تاکہ ان کے لیے ظاہر کر دے جو کچھ ان کی شرم گاہوں میں سے ان سے چھپایا گیا تھا اور اس نے کہا تم دونوں کے رب نے تمھیں اس درخت سے منع نہیں کیا مگر اس لیے کہ کہیں تم دونوں فرشتے بن جاؤ، یا ہمیشہ رہنے والوں میں سے ہو جاؤ۔ [20] اور اس نے دونوں سے بار بار قسم کھا کر کہا کہ بے شک میں تم دونوں کے لیے یقینا خیر خواہوں سے ہوں۔ [21] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ہم نے حکم دیا کہ اے آدم! تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو۔ پھر جس جگہ سے چاہو دونوں کھاؤ، اور اس درخت کے پاس مت جاؤ ورنہ تم دونوں ﻇالموں میں سے ہوجاؤ گے [19] پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈاﻻ تاکہ ان کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیده تھیں دونوں کے روبرو بے پرده کردے اور کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا، مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں کہیں فرشتے ہوجاؤ یا کہیں ہمیشہ زنده رہنے والوں میں سے ہوجاؤ [20] اور ان دونوں کے روبرو قسم کھالی کہ یقین جانیئے میں تم دونوں کا خیر خواه ہوں [21]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم نے آدم (سے کہا کہ) تم اور تمہاری بیوی بہشت میں رہو سہو اور جہاں سے چاہو (اور جو چاہو) نوش جان کرو مگر اس درخت کے پاس نہ جاؤ ورنہ گنہگار ہو جاؤ گے [19] تو شیطان دونوں کو بہکانے لگا تاکہ ان کی ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں کھول دے اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو [20] اور ان سے قسم کھا کر کہا میں تو تمہارا خیر خواہ ہوں [21]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 19، 20، 21،
پہلا امتحان اور اسی میں لغزش اور اس کا انجام ٭٭
ابلیس کو نکال کر آدم و حواء علیہم السلام کو جنت میں پہنچا دیا گیا اور بجز ایک درخت کے، انہیں ساری جنت کی چیزیں کھانے کی رخصت دے دی گئی۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ البقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔
شیطان کو اس سے بڑا ہی حسد ہوا، ان کی نعمتوں کو دیکھ کر لعین جل گیا اور ٹھان لی کہ جس طرح سے ہو، انہیں بہکا کر اللہ کے خلاف کرا دوں۔ چنانچہ جھوٹ، افتراء باندھ کر ان سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ درخت وہ ہے جس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے اور ہمیشہ کی زندگی اسی جنت میں پاؤ گے۔
جیسے اور آیت میں ہے کہ ابلیس نے کہا: میں تمہیں ایک درخت کا پتہ دیتا ہوں جس سے تمہیں بقاء اور ہمیشگی والا ملک مل جائے گا۔ یہاں ہے کہ ان سے کہا: تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ۔ جیسے فرمان ہے «يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّواْ»[4-النساء:176] مطلب یہ ہے کہ «أَن لَّا تَضِلُّواْ»
اور آیت میں ہے «وَأَلْقَى فِى الاٌّرْضِ رَوَاسِىَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ»[16-النحل:15] «أَن تَمِيدَ بِكُمْ» یہاں بھی یہی مطلب ہے۔
«مَلَكَيْنِ» کی دوسری قرأت «مَلِكَيْنِ» بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت «لام» کے زبر کے ساتھ ہے۔
پھر اپنا اعتبار جمانے کیلئے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو، میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں، ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں۔ تم اسے کھا لو، بس پھر یہیں رہو گے بلکہ فرشتے بن جاؤ گے۔
«قَاسَمَ» گو باب «مفاعلہ» سے ہے اور اس کی خاصیت طرفین کی مشارکت ہے لیکن یہاں یہ خاصیت نہیں ہے۔ ایسے اشعار بھی ہیں جہاں «قَاسَمَ» آیا ہے اور صرف ایک طرف کے لیے۔
اس قسم کی وجہ سے اس خبیث کے بہکاوے میں آدم علیہ السلام آ گئے۔ سچ ہے! مومن اس وقت دھوکا کھا جاتا ہے جب کوئی ناپاک انسان اللہ کو بیچ میں دیتا ہے۔ چنانچہ سلف کا قول ہے کہ ہم اللہ کے نام کے بعد اپنے ہتھیار ڈال دیا کرتے ہیں۔