[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور بلاشبہ یقینا ہم نے تمھارا خاکہ بنایا، پھر ہم نے تمھاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ سجدہ کرنے والوں سے نہ ہوا۔ [11] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم ہی نے تمہاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجده کرو سو سب نے سجده کیا بجز ابلیس کے، وه سجده کرنے والوں میں شامل نہ ہوا [11]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور ہم ہی نے تم کو (ابتدا میں مٹی سے) پیدا کیا پھر تمہاری صورت شکل بنائی پھر فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے سجدہ کرو تو (سب نے) سجدہ کیا لیکن ابلیس کہ وہ سجدہ کرنے والوں میں (شامل) نہ ہوا [11]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 11،
ابلیس، آدم علیہ السلام اور نسل آدم ٭٭
انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدم کا حسد کیا۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی۔ پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو۔
اسی واقعہ کا ذکر آیت «وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ فَسَجَدَ الْمَلَائِكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَىٰ أَن يَكُونَ مَعَ السَّاجِدِينَ»[15-الحجر28-30] آدم علیہ السلام کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا، انسانی صورت عطا فرمائی۔ پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی۔ پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کیلئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاؤ۔ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا۔
اس واقعہ کو سورۃ البقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی پسند فرمایا ہے۔
2860
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ سے پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم علیہ السلام ہے۔
ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی۔ لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ آدم علیہ السلام کے لیے ہی ہوا تھا۔
جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لیے ہوا کہ آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت «وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَىٰ»[2-البقرة:57] اسی کی نظیر ہے۔ یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر۔ لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گزار ہونا چاہیئے تھا۔ اس لیے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی، یہاں یہ بات واضح ہے۔
اس کے بالکل برعکس آیت «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ»[23-المؤمنون:12] ہے کہ مراد آدم علیہ السلام ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے۔ ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انسان ہے نہ کہ معین۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»