یہ سورت مکے میں اتری ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ پوری سورت ایک ہی مرتبہ ایک ساتھ ہی ایک ہی رات میں مکہ شریف میں نازل ہوئی ہے، اس کے اردگرد ستر ہزار فرشتے تھے جو تسبیح پڑھ رہے تھے۔ [طبرانی کبیر:12930:ضعیف]
ایک روایت میں ہے کہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے فرشتوں کی کثرت زمین سے آسمان تک تھی، یہ ستر ہزار فرشتے اس سورت کے پہنچانے کے لئے آئے تھے۔ [طبرانی کبیر:178/24:ضعیف]
مستدرک حاکم میں ہے، اس سورت کے نازل ہونے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس مبارک سورت کو پہنچانے کیلئے اس قدر فرشتے آئے تھے کہ آسمان کے کنارے دکھائی نہیں دیتے تھے۔“[سلسلة احادیث ضعیفه البانی:تحت الحدیث:5627:ضعیف و منقطع]
ابن مردویہ میں یہ بھی ہے کہ فرشتوں کی اس وقت کی تسبیح نے ایک گونج پیدا کر دی تھی زمین گونج رہی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ» «سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ» پڑھ رہے تھے۔ [الدر المنشور للسیوطی:3/3:ضعیف]
ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ مجھ پر سورۃ انعام ایک دفعہ ہی اتری۔ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے تھے جو تسبیح و حمد بیان کر رہے تھے۔ [طبرانی صغیر:220:ضعیف]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ﴿﴾
شروع کرتا ہوں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا، پھر (بھی) وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، اپنے رب کے ساتھ برابر ٹھہراتے ہیں۔ [1] وہی ہے جس نے تمھیں حقیر مٹی سے پیدا کیا، پھر ایک مدت مقرر کی اور ایک اور مدت اس کے ہاں مقرر ہے، پھر (بھی) تم شک کرتے ہو۔ [2] اور آسمانوں میں اور زمین میں وہی اللہ ہے، تمھارے چھپے اور تمھارے کھلے کو جانتا ہے اور جانتا ہے جو تم کماتے ہو۔ [3] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] تمام تعریفیں اللہ ہی کے ﻻئق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور نور کو بنایا پھر بھی کافر لوگ (غیر اللہ کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں [1] وه ایسا ہے جس نے تم کو مٹی سے بنایا پھر ایک وقت معین کیا اور (دوسرا) معین وقت خاص اللہ ہی کے نزدیک ہے پھر بھی تم شک رکھتے ہو [2] اور وہی ہے معبود برحق آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی، وه تمہارے پوشیده احوال کو بھی اور تمہارے ﻇاہر احوال کو بھی جانتا ہے اور تم جو کچھ عمل کرتے ہو اس کو بھی جانتا ہے [3]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہر طرح کی تعریف خدا ہی کو سزاوار ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیرا اور روشنی بنائی پھر بھی کافر (اور چیزوں کو) خدا کے برابر ٹھیراتے ہیں [1] وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر (مرنے کا) ایک وقت مقرر کر دیا اور ایک مدت اس کے ہاں اور مقرر ہے پھر بھی تم (اے کافرو خدا کے بارے میں) شک کرتے ہو [2] اور آسمانوں اور زمین میں وہی (ایک) خدا ہے تمہاری پوشیدہ اور ظاہر سب باتیں جانتا ہے اور تم جو عمل کرتے ہو سب سے واقف ہے [3]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3،
اللہ کی بعض صفات ٭٭
اللہ تعالیٰ اپنی تعریف کر رہا ہے گویا ہمیں اپنی تعریفوں کا حکم دے رہا ہے، اس کی تعریف جن امور پر ہے ان میں سے ایک زمین و آسمان کی پیدائش بھی ہے دن کی روشنی اور رات کا اندھیرا بھی ہے اندھیرے کو جمع کے لفظ سے اور نور کو واحد کے لفظ سے لانا نور کی شرافت کی وجہ سے ہے۔
جیسے فرمان ربانی آیت «عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ»[16-النحل:48] میں اور اس سورت کے آخری حصے کی آیت «وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ»[6۔ الانعام:153] میں۔
یہاں بھی راہ راست کو واحد رکھا اور غلط راہوں کو جمع کے لفظ سے بتایا، اللہ ہی قابل حمد ہے، کیونکہ وہی خالق کل ہے مگر پھر بھی کافر لوگ اپنی نادانی سے اس کے شریک ٹھہرا رہے ہیں کبھی بیوی اور اولاد قائم کرتے ہیں کبھی شریک اور ساجھی ثابت کرنے بیٹھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں سے پاک ہے، اس رب نے تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا اور پھر تمہیں اس کی نسل سے مشرق مغرب میں پھیلا دیا، موت کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، آخرت کے آنے کا وقت بھی اسی کا مقرر کیا ہوا ہے، پہلی اجل سے مراد دنیاوی زندگی دوسری اجل سے مراد قبر کی رہائش، گویا پہلی اجل خاص ہے یعنی ہر شخص کی عمر اور دوسری اجل عام ہے یعنی دنیا کی انتہا اور اس کا خاتمہ۔
2527
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہدرحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے کہ «قَضَى أَجَلًا» سے مراد مدت دنیا ہے اور «أَجَلٌ مُسَمًّى» سے مراد عمر انسان ہے۔ بہت ممکن ہے کہ اس کا استدلال آنے والی آیت «وَهُوَ الَّذِيْ يَتَوَفّٰىكُمْ بالَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى»[6۔ الأنعام:60] سے ہو۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آیت «ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا» سے مراد نیند ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے، پھر جاگنے کے وقت لوٹا دی جاتی ہے اور «أَجَلٌ مُسَمًّى» سے مراد موت ہے یہ قول غریب ہے۔
«عِنْدَهُ» سے مراد اس کے علم کا اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہونا ہے، جیسے فرمایا آیت «قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ لَا يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ اِلَّا هُوَ»[7۔ الأعراف:187] یعنی ” قیامت کا علم تو صرف میرے رب کے پاس ہی ہے “، سورۃ النازعات میں بھی فرمان ہے کہ «يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا فِيمَ أَنتَ مِن ذِكْرَاهَا إِلَىٰ رَبِّكَ مُنتَهَاهَا»[79-النازعات:42-44] ” لوگ تجھ سے قیامت کے صحیح وقت کا حال دریافت کرتے ہیں حالانکہ تجھے اس کا علم کچھ بھی نہیں وہ تو صرف اللہ ہی کو معلوم ہے “۔ باوجود اتنی پختگی کے اور باوجود کسی قسم کا شک شبہ نہ ہونے کے پھر بھی لوگ قیامت کے آنے نہ آنے میں تردد اور شک کر رہے ہیں۔
اس کے بعد جو ارشاد جناب باری نے فرمایا ہے، اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں لیکن کسی کا بھی وہ مطلب نہیں جو جہمیہ لے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سے ہر جگہ ہے، نعوذ باللہ، اللہ کی برتر و بالا ذات اس سے بالکل پاک ہے۔
آیت کا بالکل صحیح مطلب یہ ہے کہ آسمانوں میں بھی اسی کی ذات کی عبادت کی جاتی ہے اور زمینوں میں بھی، اسی کی الوہیت وہاں بھی ہے اور یہاں بھی، اوپر والے اور نیچے والے سب اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہیں، سب کی اسی سے امیدیں وابستہ ہیں اور سب کے دل اسی سے لرز رہے ہیں جن و انس سب اسی کی الوہیت اور بادشاہی مانتے ہیں جیسے اور آیت میں ہے «وَهُوَ الَّذِيْ فِي السَّمَاءِ اِلٰهٌ وَّفِي الْاَرْضِ اِلٰهٌ وَهُوَ الْحَكِيْمُ الْعَلِيْمُ»[43۔ الزخرف:84] یعنی ” وہی آسمانوں میں معبود برحق ہے اور وہی زمین میں معبود برحق ہے، یعنی آسمانوں میں جو ہیں، سب کا معبود وہی ہے اور اسی طرح زمین والوں کا بھی سب کا معبود وہی ہے “۔
2528
اب اس آیت کا اور جملہ «يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ»[6۔ الأنعام:3] خبر ہو جائے گا یا حال سمجھا جائے گا اور یہ بھی قول ہے کہ اللہ وہ ہے جو آسمانوں کی سب چیزوں کو اس زمین کی سب چیزوں کو چاہے وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ، جانتا ہے۔
پس «يَعْلَمُ» متعلق ہو گا «فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ» کا اور تقدیر آیت یوں ہو جائے گی آیت «وَهُوَ اللَّهُ یعلمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تَكْسِبُوْنَ» ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت «وَهُوَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ» پر وقف تام ہے اور پھر جملہ مستانفہ کے طور پر خبر ہے کہ آیت «وَفِي الْأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَجَهْرَكُمْ» امام ابن جریر اسی تیسرے قول کو پسند کرتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے ” تمہارے کل اعمال سے خیر و شر سے وہ واقف ہے “۔