تفسير ابن كثير



سورۃ المائده

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ[59] قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٍّ مِنْ ذَلِكَ مَثُوبَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَئِكَ شَرٌّ مَكَانًا وَأَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ[60] وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ[61] وَتَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ[62] لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُونَ[63]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کہہ دے اے اہل کتاب! تم ہم سے اس کے سوا کس چیز کا انتقام لیتے ہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو اس سے پہلے نازل کیا گیا اور یہ کہ تمھارے اکثر نافرمان ہیں۔ [59] کہہ دے کیا میں تمھیں اللہ کے نزدیک جزا کے اعتبار سے اس سے زیادہ برے لوگ بتائوں، وہ جن پر اللہ نے لعنت کی اور جن پر غصے ہوا اور جن میں سے بندر اور خنزیر بنا دیے اور جنھوں نے طاغوت کی عبادت کی، یہ لوگ درجے میں زیادہ برے اور سیدھے راستے سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ [60] اور جب وہ تمھارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، حالانکہ یقینا وہ کفر کے ساتھ داخل ہوئے اور یقینا اسی کے ساتھ وہ نکل گئے اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے تھے۔ [61] اور تو ان میں سے بہت سے لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ گناہ اور زیادتی اور اپنی حرام خوری میں دوڑ کر جاتے ہیں۔ یقینا برا ہے جو وہ عمل کرتے تھے۔ [62] انھیں رب والے لوگ اور علماء ان کے جھوٹ کہنے اور ان کے حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟ یقینا برا ہے جو وہ کیا کرتے تھے۔ [63]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ کہہ دیجیئے اے یہودیوں اور نصرانیو! تم ہم سے صرف اس وجہ سے دشمنیاں کر رہے ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ پر اور جو کچھ ہماری جانب نازل کیا گیا ہے اور جو کچھ اس سے پہلے اتارا گیا ہے اس پر ایمان ﻻئے ہیں اور اس لئے بھی کہ تم میں اکثر فاسق ہیں [59] کہہ دیجیئے کہ کیا میں تمہیں بتاؤں؟ کہ اس سے بھی زیاده برے اجر پانے واﻻ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون ہے؟ وه جس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی اور اس پر وه غصہ ہوا اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے معبودان باطل کی پرستش کی، یہی لوگ بدتر درجے والے ہیں اور یہی راه راست سے بہت زیاده بھٹکنے والے ہیں [60] اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان ﻻئے حاﻻنکہ وه کفر لئے ہوئے ہی آئے تھے اور اسی کفر کے ساتھ ہی گئے بھی اور یہ جو کچھ چھپا رہے ہیں اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے [61] آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر گناه کے کاموں کی طرف اور ﻇلم وزیادتی کی طرف اور مال حرام کھانے کی طرف لپک رہے ہیں، جو کچھ یہ کر رہے ہیں وه نہایت برے کام ہیں [62] انہیں ان کے عابد وعالم جھوٹ باتوں کے کہنے اور حرام چیزوں کے کھانے سے کیوں نہیں روکتے، بےشک برا کام ہے جو یہ کر رہے ہیں [63]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہو کہ اے اہل کتاب! تم ہم میں برائی ہی کیا دیکھتے ہو سوا اس کے کہ ہم خدا پر اور جو (کتاب) ہم پر نازل ہوئی اس پر اور جو (کتابیں) پہلے نازل ہوئیں ان پر ایمان لائے ہیں اور تم میں اکثر بدکردار ہیں [59] کہو کہ میں تمہیں بتاؤں کہ خدا کے ہاں اس سے بھی بدتر جزا پانے والے کون ہیں؟ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے لعنت کی اور جن پر وہ غضبناک ہوا اور (جن کو) ان میں سے بندر اور سور بنا دیا اور جنہوں نے شیطان کی پرستش کی ایسے لوگوں کا برا ٹھکانہ ہے اور وہ سیدھے رستے سے بہت دور ہیں [60] اور جب یہ لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے حالانکہ کفر لے کر آتے ہیں اور اسی کو لیکر جاتے ہیں اور جن باتوں کو یہ مخفی رکھتے ہیں خدا ان کو خوب جانتا ہے [61] اور تم دیکھو گے کہ ان میں اکثر گناہ اور زیادتی اور حرام کھانے میں جلدی کر رہے ہیں بےشک یہ جو کچھ کرتے ہیں برا کرتے ہیں [62] بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بلاشبہ وہ بھی برا کرتے ہیں [63]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 59، 60، 61، 62، 63،

بدترین گروہ اور اس کا انجام ٭٭

حکم ہوتا ہے کہ ” جو اہل کتاب تمہارے دین پر مذاق اڑاتے ہیں، ان سے کہو کہ تم نے جو دشمنی ہم سے کر رکھی ہے، اس کی کوئی وجہ اس کے سوا نہیں کہ ہم اللہ پر اور اس کی تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں “۔ پس دراصل نہ تو یہ کوئی وجہ بغض ہے، نہ سبب مذمت بہ استثناء منقطع ہے۔

اور آیت میں ہے «وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا باللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ» [85-البروج:8] ‏‏‏‏، یعنی ” فقط اس وجہ سے انہوں نے ان سے دشمنی کی تھی کہ وہ اللہ عزیز و حمید کو مانتے تھے “۔

اور جیسے اور آیت میں «وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ» [9-التوبة:74] ‏‏‏‏۔ یعنی ” انہوں نے صرف اس کا انتقام لیا ہے کہ انہیں اللہ نے اپنے فضل سے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مال دے کر غنی کر دیا ہے “۔
2365

بخاری مسلم کی حدیث میں ہے ابن جمیل اسی کا بدلہ لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا تو اللہ نے اسے غنی کر دیا ۔ [صحیح بخاری:1468] ‏‏‏‏

اور یہ کہ تم میں سے اکثر صراط مستقیم سے الگ اور خارج ہو چکے ہیں، تم جو ہماری نسبت گمان رکھتے ہو آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ اللہ کے ہاں سے بدلہ پانے میں کون بدتر ہے؟ اور وہ تم ہو کہ کیونکہ یہ خصلتیں تم میں ہی پائی جاتی ہیں۔ یعنی جسے اللہ نے لعنت کی ہو، اپنی رحمت سے دور پھینک دیا ہو، اس پر غصبناک ہوا ہو، ایسا جس کے بعد رضامند نہیں ہوگا اور جن میں سے بعض کی صورتیں بگاڑ دی ہوں، بندر اور سور بنا دیئے ہوں۔ اس کا پورا بیان سورۃ البقرہ میں گزر چکا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ یہ بندر و سور وہی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس قوم پر اللہ کا ایسا عذاب نازل ہوتا ہے، ان کی نسل ہی نہیں ہوتی، ان سے پہلے بھی سور اور بندر تھے ۔ روایت مختلف الفاظ میں صحیح مسلم اور نسائی میں بھی ہے۔ [صحیح مسلم:2663] ‏‏‏‏
2366

مسند میں ہے کہ جنوں کی ایک قوم سانپ بنا دی گئی تھی۔ جیسے کہ بندر اور سور بنا دیئے گئے ۔ [مسند احمد:348/1:صحیح] ‏‏‏‏

یہ حدیث بہت ہی غریب ہے، انہی میں سے بعض کو غیر اللہ کے پرستار بنا دیئے ۔

ایک قرأت میں اضافت کے ساتھ طاغوت کی زیر سے بھی ہے۔ یعنی ” انہیں بتوں کا غلام بنا دیا “۔ برید اسلمی رحمہ اللہ اسے «عَابِدُ الطَّاغُوْتِ» پڑھتے تھے۔ ابو جعفر قاری رحمہ اللہ سے «وَعْبِدَ الطَّاغُوْتُ» بھی منقول ہے جو بعید از معنی ہو جاتا ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہوتا مطلب یہ ہے کہ ” تم ہی وہ ہو، جنہوں نے طاغوت کی عبادت کی “۔

الغرض اہل کتاب کو الزام دیا جاتا ہے کہ ہم پر تو عیب گیری کرتے ہو، حالانکہ ہم موحد ہیں، صرف ایک اللہ برحق کے ماننے والے ہیں اور تم تو وہ ہو کہ مذکورہ سب برائیاں تم میں پائی گئیں۔ اسی لیے خاتمے پر فرمایا کہ یہی لوگ باعتبار قدر و منزلت کے بہت برے ہیں اور باعتبار گمراہی کے انتہائی غلط راہ پر پڑے ہوئے ہیں۔ اس افعل التفصیل میں دوسری جانب کچھ مشارکت نہیں اور یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں۔ جیسے اس آیت میں «اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ يَوْمَىِٕذٍ خَيْرٌ مُّسْتَــقَرًّا وَّاَحْسَنُ مَقِيْلًا» [25-الفرقان:24] ‏‏‏‏

پھر منافقوں کی ایک اور بدخصلت بیان کی جا رہی ہے کہ ” ظاہر میں تو وہ مومنوں کے سامنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے باطن کفر سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ تیرے کفر کی حالت میں پاس آتے ہیں اور اسی حالت میں تیرے پاس سے جاتے ہیں تو تیری باتیں، تیری نصیحتیں ان پر کچھ اثر نہیں کرتیں۔ بھلا یہ پردہ داری انہیں کیا کام آئے گی، جس سے ان کا معاملہ ہے، وہ تو عالم الغیب ہے، دلوں کے بھید اس پر روشن ہیں۔ وہاں جا کر پورا پورا بدلہ بھگتنا پڑے گا “۔
2367

” تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ گناہوں پر، حرام پر اور باطل کے ساتھ لوگوں کے مال پر کس طرح چڑھ دوڑتے ہیں؟ ان کے اعمال نہایت ہی خراب ہو چکے ہیں۔ ان کے اولیاء اللہ یعنی عابد و عالم اور ان کے علماء انہیں ان باتوں سے کیوں نہیں روکتے؟ دراصل ان کے علماء اور پیروں کے اعمال بدترین ہوگئے ہیں “۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ علماء اور فقراء کی ڈانٹ کیلئے اس سے زیادہ سخت آیت کوئی نہیں۔‏‏‏‏

ضحاک رحمة الله سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک خطبے میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا لوگو تم سے اگلے لوگ اسی بناء پر ہلاک کر دیئے گئے کہ وہ برائیاں کرتے تھے تو ان کے عالم اور اللہ والے خاموش رہتے تھے، جب یہ عادت ان میں پختہ ہو گئی تو اللہ نے انہیں قسم قسم کی سزائیں دیں۔ پس تمہیں چاہیئے کہ بھلائی کا حکم کرو، برائی سے روکو، اس سے پہلے کہ تم پر بھی وہی عذاب آ جائیں جو تم سے پہلے والوں پر آئے، یقین رکھو کہ اچھائی کا حکم برائی سے ممانعت نہ تو تمہارے روزی گھٹائے گا، نہ تمہارے موت قریب کر دے گا۔‏‏‏‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس قوم میں کوئی اللہ کی نافرمانی کرے اور وہ لوگ باوجود روکنے کی قدرت اور غلبے کے اسے نہ مٹائیں تو اللہ تعالیٰ سب پر اپنا عذاب نازل فرمائے گا ۔ [مسند احمد:363/3:حسن] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں ہے کہ یہ عذاب ان کی موت سے پہلے ہی آئے گا ۔ [سنن ابوداود:4339،قال الشيخ الألباني:حسن] ‏‏‏‏ ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے۔ [سنن ابن ماجہ:4009،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
2368



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.