[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف قرب تلاش کرو اور اس کے راستے میں جہاد کرو، تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ [35] بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، اگر ان کے پاس زمین میں جو کچھ ہے وہ سب اور اس کے ساتھ اتنا اور بھی ہو، تاکہ وہ اس کے ساتھ قیامت کے دن کے عذاب سے فدیہ دے دیں تو ان سے قبول نہ کیا جائے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ [36] وہ چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں، حالانکہ وہ اس سے ہرگز نکلنے والے نہیں اور ان کے لیے ہمیشہ رہنے والا عذاب ہے۔ [37] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راه میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو [35] یقین مانو کہ کافروں کے لئے اگر وه سب کچھ ہو جو ساری زمین میں ہے بلکہ اسی کے مثل اور بھی ہو اور وه اس سب کو قیامت کے دن کے عذاب کے بدلے فدیے میں دینا چاہیں تو بھی ناممکن ہے کہ ان کا فدیہ قبول کرلیا جائے، ان کے لئے تو درد ناک عذاب ہی ہے [36] یہ چاہیں گے کہ دوزخ میں سے نکل جائیں لیکن یہ ہرگز اس میں سے نہ نکل سکیں گے، ان کے لئے تو دوامی عذاب ہیں [37]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ [35] جو لوگ کافر ہیں اگر ان کے پاس روئے زمین (کے تمام خزانے اور اس) کا سب مال ومتاع ہو اور اس کے ساتھ اسی قدر اور بھی ہو تاکہ قیامت کے روز عذاب (سے رستگاری حاصل کرنے) کا بدلہ دیں تو ان سے قبول نہیں کیا جائے گا اور ان کو درد دینے والا عذاب ہوگا [36] (ہر چند) چاہیں گے کہ آگ سے نکل جائیں مگر اس سے نہیں نکل سکیں گے اور ان کے لئے ہمیشہ کا عذاب ہے [37]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 35، 36، 37،
تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے ٭٭
تقوے کا حکم ہو رہا ہے اور وہ بھی اطاعت سے ملا ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے منع کردہ کاموں سے جو شخص رکا رہے، اس کی طرف قربت یعنی نزدیکی تلاش کرے۔ وسیلے کے یہی معنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہیں۔ مجاہد، وائل، حسن، ابن زید رحمة الله علیہم اور بہت سے مفسرین سے بھی مروی ہے۔
قتادہ رحمة الله فرماتے ہیں ”اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے اعمال کرنے سے اس سے قریب ہوتے جاؤ۔“ ابن زید نے یہ آیت بھی پڑھی «اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَهٗ وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا»[17-الاسراء:57] ” جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں “۔
ان ائمہ نے وسیلے کے جو معنی اس آیت میں کئے ہیں اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں۔ امام جریر رحمة الله نے اس پر ایک عربی شعر بھی وارد کیا ہے ؎ «(إِذَا غَفَلَ الْوَاشُونَ عُدْنَا لِوصْلِنَا وَعَادَ التَّصَافِي بَيْنَنَا وَالْوَسَائِلُ)» ، جس میں وسیلہ معنی قربت اور نزدیک کے مستعمل ہوا ہے۔ وسیلے کے معنی اس چیز کے ہیں جس سے مقصود کے حاصل کرنے کی طرف پہنچا جائے اور وسیلہ جنت کی اس اعلیٰ اور بہترین منزل کا نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ ہے۔ عرش سے بہت زیادہ قریب یہی درجہ ہے۔
جیسے اور آیت میں ہے «وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا»[17-الاسراء:79] ” قریب ہے کہ خدا تم کو مقام محمود میں داخل کرے “۔
2299
صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے جو شخص اذان سن کر دعا «اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدَتْهُ، إِلَّا حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»، پڑھے اس کیلئے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے ۔ [صحیح بخاری:614]
مسلم کی حدیث میں ہے جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو، وہی تم بھی کہو، پھر مجھ پر درود بھیجو، ایک درود کے بدلے تم پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ پھر میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو، وہ جنت کا ایک درجہ ہے، جسے صرف ایک ہی بندہ پائے گا، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔ پس جس نے میرے لیے وسیلہ طلب کیا، اس کیلئے میری شفاعت واجب ہو گئی ۔ [صحیح مسلم:384]
مسند احمد میں ہے جب تم مجھ پر درود پڑھو تو میرے لیے وسیلہ مانگو ، پوچھا گیا کہ وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا: جنت کا سب سے بلند درجہ جسے صرف ایک شخص ہی پائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں ۔ [سنن ترمذي:3612،قال الشيخ الألباني:صحیح]
2300
طبرانی میں ہے تم اللہ سے دعا کرو کہ اللہ مجھے وسیلہ عطا فرمائے جو شخص دنیا میں میرے لیے یہ دعا کرے گا، میں اس پر گواہ یا اس کا سفارشی قیامت کے دن بن جاؤں گا ۔ [طبرانی اوسط:637:حسن]
اور حدیث میں ہے وسیلے سے بڑا درجہ جنت میں کوئی نہیں، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلے کے ملنے کی دعا کرو ۔ [سلسلة احادیث صحیحہ البانی:3571:صحیح]
ایک غریب اور منکر حدیث میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ وسیلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور کون ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ، سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا نام لیا ۔ [ضعیف جدا]
ایک اور بہت غریب روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے منبر پر فرمایا کہ ”جنت میں دو موتی ہیں، ایک سفید ایک زرد، زرد تو عرش تلے ہے اور مقام محمود سفید موتی کا ہے، جس میں ستر ہزار بالاخانے ہیں، جن میں سے ہر ہر گھر تین میل کا ہے۔ اس کے دریچے دروازہ تخت وغیرہ سب کے سب گویا ایک ہی جڑ سے ہیں۔ اسی کا نام وسیلہ ہے، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہل بیت کیلئے ہے۔“[میزان:3118:موقوف ضعیف]
تقویٰ کا یعنی ممنوعات سے رکنے کا اور حکم احکام کے بجا لانے کا حکم دے کر پھر فرمایا کہ ” اس کی راہ میں جہاد کرو، مشرکین و کفار کو جو اس کے دشمن ہیں اس کے دین سے الگ ہیں، اس کی سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں، انہیں قتل کرو۔ ایسے مجاہدین بامراد ہیں، فلاح و صلاح سعادت و شرافت انہی کیلئے ہیں، جنت کے بلند بالاخانے اور اللہ کی بےشمار نعمتیں انہی کیلئے ہیں، یہ اس جنت میں پہنچائے جائیں گے، جہاں موت و فوت نہیں، جہاں کمی اور نقصان نہیں، جہاں ہمیشگی کی جوانی اور ابدی صحت اور دوامی عیش و عشرت ہے “۔
2301
اپنے دوستوں کا نیک انجام بیان فرما کر اب اپنے دشمنوں کا برا نتیجہ ظاہر فرماتا ہے کہ ” ایسے سخت اور بڑے عذاب انہیں ہو رہے ہوں گے کہ اگر اس وقت روئے زمین کے مالک ہوں بلکہ اتنا ہی اور بھی ہو تو ان عذابوں سے بچنے کیلئے بطور بدلے کے سب دے ڈالیں لیکن اگر ایسا ہو بھی جائے تو بھی ان سے اب فدیہ قبول نہیں بلکہ جو عذاب ان پر ہیں، وہ دائمی اور ابدی اور دوامی ہیں “۔
جیسے اور جگہ ہے کہ «كُلَّمَا أَرَادُوا أَن يَخْرُجُوا مِنْهَا مِنْ غَمٍّ أُعِيدُوا فِيهَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ»[22-الحج:22] ” جہنمی جب جہنم میں سے نکلنا چاہئیں گے تو پھر دوبارہ اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ بھڑکتی ہوئی آگ کے شعلوں کے ساتھ اوپر آ جائیں گے کہ داروغے انہیں لوہے کے ہتھوڑے مار مار کر پھر قعر جہنم میں گرا دیں گے۔ غرض ان دائمی عذابوں سے چھٹکارا محال ہے “۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ایک جہنمی کو لایا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا کہ اے ابن آدم کہو تمہاری جگہ کیسی ہے؟ وہ کہے گا بدترین اور سخت ترین۔ اس سے پوچھا جائے گا کہ اس سے چھوٹنے کیلئے تو کیا کچھ خرچ کر دینے پر راضی ہے؟ وہ کہے گا ساری زمین بھر کا سونا دے کر بھی میں یہاں سے چھوٹوں تو بھی سستا چھوٹا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” جھوٹا ہے میں نے تو تجھ سے اس سے بہت ہی کم مانگا تھا لیکن تو نے کچھ بھی نہ کیا “۔ پھر حکم دیا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا [صحیح بخاری:6538]
2302
ایک مرتبہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا کہ ایک قوم جہنم میں سے نکال کر جنت میں پہنچائی جائے گی ۔ اس پر ان کے شاگرد یزید فقیر رحمہ اللہ نے پوچھا کہ پھر اس آیت قرآنی کا کیا مطلب ہے؟ کہ «يُرِيْدُوْنَ اَنْ يَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَمَا هُمْ بِخٰرِجِيْنَ مِنْهَا ۡ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ»[5-المائدہ:37] ، یعنی ” وہ جہنم سے آزاد ہونا چاہیں گے لیکن وہ آزاد ہونے والے نہیں “۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”اس سے پہلے کی آیت «إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ أَنَّ لَهُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا وَمِثْلَهُ مَعَهُ لِيَفْتَدُوا بِهِ مِنْ عَذَابِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَا تُقُبِّلَ مِنْهُمْ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ»[5-المائدہ:36] ، پڑھو جس سے صاف ہو جاتا ہے کہ یہ کافر لوگ ہیں یہ کبھی نہ نکلیں گے۔“[صحیح مسلم:191]
دوسری روایت میں ہے کہ یزید رحمة الله کا خیال یہی تھا کہ جہنم میں سے کوئی بھی نہ نکلے گا اس لیے یہ سن کر انہوں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے اور لوگوں پر تو افسوس نہیں ہاں آپ صحابیوں رضی اللہ عنہم پر افسوس ہے کہ آپ بھی قرآن کے الٹ کہتے ہیں اس وقت مجھے بھی غصہ آگیا تھا۔ اس پر ان کے ساتھیوں نے مجھے ڈانٹا لیکن سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بہت ہی حلیم الطبع تھے انہوں نے سب کو روک دیا اور مجھے سمجھایا کہ ”قرآن میں جن کا جہنم سے نہ نکلنے کا ذکر ہے وہ کفار ہیں۔ تم نے قرآن نہیں پڑھا؟“ میں نے کہا ہاں مجھے سارا قرآن یاد ہے؟ کہا ”پھر کیا یہ آیت قرآن میں نہیں ہے؟ «وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا»[17-الاسراء:79] ، اس میں مقام محمود کا ذکر ہے یہی مقام شفاعت ہے اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو جہنم میں ان کی خطاؤں کی وجہ سے ڈالے گا اور جب تک چاہے انہیں جہنم میں ہی رکھے گا پھر جب چاہے گا انہیں اس سے آزاد کر دے گا۔“ یزید رحمة الله فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے میرا خیال ٹھیک ہوگیا۔ [ضعیف] ۔
2303
طلق بن حبیب رحمة الله کہتے ہیں میں بھی منکر شفاعت تھا یہاں تک کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے ملا اور اپنے دعوے کے ثبوت میں جن جن آیتوں میں جہنم کے ہمیشہ رہنے والوں کا ذکر ہے سب پڑھ ڈالیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے سن کر فرمایا! ”اے طلق کیا تم اپنے تئیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں مجھ سے افضل جانتے ہو؟ سنو جتنی آیتیں تم نے پڑھی ہیں وہ سب اہل جہنم کے بارے میں ہیں یعنی مشرکوں کیلئے۔ لیکن وہ لوگ نکلیں گے یہ وہ لوگ ہیں جو مشرک نہ تھے لیکن گہنگار تھے گناہوں کے بدلے سزا بھگت لی پھر جہنم سے نکال دیئے گئے۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے یہ سب فرما کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ”یہ دونوں بہرے ہو جائیں اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہو کہ جہنم میں داخل ہونے بعد بھی لوگ اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ جہنم سے آزاد کر دیئے جائیں گے ، قرآن کی یہ آیتیں جس طرح تم پڑھتے ہو ہم بھی پڑھتے ہی ہیں۔“[الادب المفرد:818:ضعیف]