تفسير ابن كثير



سورۃ الفلق

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ[1] مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ[2] وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ[3] وَمِنْ شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ[4] وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ[5]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو کہہ میں مخلوق کے رب کی پناہ پکڑتا ہوں۔ [1] اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی۔ [2] اور اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھا جائے۔ [3] اور گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے۔ [4] اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔ [5]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ کہہ دیجئے! کہ میں صبح کے رب کی پناه میں آتا ہوں [1] ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ہے [2] اور اندھیری رات کی تاریکی کے شر سے جب اس کا اندھیرا پھیل جائے [3] اور گره (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (بھی) [4] اور حسد کرنے والے کی برائی سے بھی جب وه حسد کرے [5]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کہو کہ میں صبح کے پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں [1] ہر چیز کی بدی سے جو اس نے پیدا کی [2] اور شب تاریکی کی برائی سے جب اس کااندھیرا چھا جائے [3] اور گنڈوں پر (پڑھ پڑھ کر) پھونکنے والیوں کی برائی سے [4] اور حسد کرنے والے کی برائی سے جب حسد کرنے لگے [5]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5،

بیماری، وبا، جادو اور ان دیکھی بلاؤں سے بچاؤ کی دعا ٭٭

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ وغیرہ فرماتے ہیں «فَلَقِ» کہتے ہیں صبح کو، خود قرآن میں اور جگہ ہے «فَالِقُ الْإِصْبَاحِ» [6-الأنعام:96] ‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے «فَلَقِ» سے مراد مخلوق ہے۔ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں «فَلَقِ» جہنم میں ایک جگہ ہے جب اس کا دروازہ کھلتا ہے تو اس کی آگ گرمی اور سختی کی وجہ سے تمام جہنمی چیخنے لگتے ہیں۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے، لیکن وہ حدیث منکر ہے۔ یہ بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ جہنم کا نام ہے۔
10924

امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ ٹھیک قول پہلا ہی ہے یعنی مراد اس سے صبح ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی یہی فرماتے ہیں اور یہی صحیح ہے۔ تمام مخلوق کی برائی سے جس میں جہنم بھی داخل ہے اور ابلیس اور اولاد ابلیس بھی۔

«غَاسِقٍ» سے مراد رات ہے۔ «إِذَا وَقَبَ» سے مراد سورج کا غروب ہو جانا ہے، یعنی رات جب اندھیرا لیے ہوئے آ جائے، ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عرب ثریا ستارے کے غروب ہونے کو «غَاسِقٍ» کہتے ہیں ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:38375:ضعیف] ‏‏‏‏ بیماریاں اور وبائیں اس کے واقع ہونے کے وقت بڑھ جاتی تھیں اور اس کے طلوع ہونے کے وقت اٹھ جاتی تھیں۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ستارہ «غَاسِقٍ» ہے، لیکن اس کا مرفوع ہونا صحیح نہیں، بعض مفسرین کہتے ہیں مراد اس سے چاند ہے۔
10925

ان کی دلیل مسند احمد کی یہ حدیث ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ تھامے ہوئے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: «تَعَوَّذِي بِاَللَّهِ مِنْ شَرّ هَذَا الْغَاسِق إِذَا وَقَبَ» ”اللہ تعالیٰ سے اس غاسق کی برائی سے پناہ مانگ“ [سنن ترمذي:3366،قال الشيخ الألباني:حسن صحيح] ‏‏‏‏

اور روایت میں ہے کہ «غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ» سے یہی مراد ہے، دونوں قولوں میں باآسانی یہ تطبیق ہو سکتی ہے کہ چاند کا چڑھنا اور ستاروں کا ظاہر ہونا وغیرہ، یہ سب رات ہی کے وقت ہوتا ہے جب رات آ جائے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

گرہ لگا کر پھونکنے والیوں سے مراد جادوگر عورتیں ہیں، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں شرک کے بالکل قریب وہ منتر ہیں جنہیں پڑھ کر سانپ کے کاٹے پر دم کیا جاتا ہے اور آسیب زدہ پر۔

دوسری حدیث میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کیا آپ بیمار ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تو جبرائیل علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی «بِسْمِ اللَّه أَرْقِيك مِنْ كُلّ دَاء يُؤْذِيك وَمِنْ شَرّ كُلّ حَاسِد وَعَيْن اللَّه يَشْفِيك» یعنی اللہ تعالیٰ کے نام سے میں دم کرتا ہوں ہر اس بیماری سے جو تجھے دکھ پہنچائے اور ہر حاسد کی برائی اور بدی سے اللہ تجھے شفاء دے ۔ [سنن ترمذي:972،قال الشيخ الألباني:صحيح] ‏‏‏‏

اس بیماری سے مراد شاید وہ بیماری ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عافیت اور شفاء بخشی اور حاسد یہودیوں کے جادوگر کے مکر کو رد کر دیا اور ان کی تدبیروں کو بےاثر کر دیا اور انہیں رسوا اور فضیحت کیا، لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے اوپر جادو کرنے والے کو ڈانٹا ڈپٹا تک نہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی کفایت کی اور آپ کو عافیت اور شفاء عطا فرمائی۔

مسند احمد میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی نے جادو کیا جس سے کئی دن تک آپ بیمار رہے پھر جبرائیل علیہ السلام نے آ کر بتایا کہ فلاں یہودی نے آپ جادو کیا ہے اور فلاں فلاں کنوئیں میں گرہیں لگا کر کر رکھا ہے آپ کسی کو بھیج کر اسے نکلوا لیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی بھیجا اور اس کنوئیں سے وہ جادو نکلوا کر گرہیں کھول دیں سارا اثر جاتا رہا پھر نہ تو آپ نے اس یہودی سے کبھی اس کا ذکر کیا اور نہ کبھی اس کے سامنے غصہ کا اظہار کیا ۔ [مسند احمد:367/4:صحیح بغیر ھذا سیاق] ‏‏‏‏
10926

صحیح بخاری کتاب الطب میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا آپ سمجھتے تھے کہ آپ ازواج مطہرات کے پاس آئے حالانکہ نہ آئے تھے۔ سفیان فرماتے ہیں یہی سب سے بڑا جادو کا اثر ہے، جب یہ حالت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو گئی ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: عائشہ میں نے اپنے رب سے پوچھا اور میرے پروردگار نے بتا دیا، دو شخص آئے ایک میرے سرہانے بیٹھا ایک پائینتی کی طرف، سرہانے والے نے اس دوسرے سے پوچھا: ان کا کیا حال ہے؟ دوسرے نے کہا ان پر جادو کیا گیا ہے پوچھا: کس نے جادو کیا ہے؟ کہا لبید بن اعصم نے جو بنو رزیق کے قبیلے کا ہے جو یہود کا حلیف ہے اور منافق شخص ہے، کہا کس چیز میں؟ کہا سر کے بالوں اور کنگھی میں، پوچھا: دکھا کہاں ہے؟ کہا تر کھجور کے درخت کی چھال میں پتھر کی چٹان تلے ذروان کے کنوئیں میں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کنوئیں کے پاس آئے اور اس میں سے وہ نکلوایا اس کا پانی ایسا تھا گویا مہندی کا گدلا پانی اس کے پاس کے کھجوروں کے درخت شیطانوں کے سر جیسے تھے، میں نے کہا بھی کہ اے اللہ کے رسول! ان سے بدلہ لینا چاہیئے، آپ نے فرمایا: الحمداللہ، اللہ تعالیٰ نے مجھے تو شفاء دے دی اور میں لوگوں میں برائی پھیلانا پسند نہیں کرتا ۔ [صحیح بخاری:5765] ‏‏‏‏
10927

دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک کام کرتے نہ تھے اور اس کے اثر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کر چکا ہوں اور یہ بھی ہے کہ اس کنوئیں کو آپ کے حکم سے بند کر دیا گیا، [صحیح بخاری:6064] ‏‏‏‏

یہ بھی مروی ہے کہ چھ مہینے تک آپ کی یہی حالت رہی، تفسیر ثعلبی میں سیدنا ابن عباس اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ یہود کا ایک بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا اسے یہودیوں نے بہلا سکھا کر آپ کے چند بال اور آپ کی کنگھی کے چند دندانے منگوا لیے اور ان میں جادو کیا اس کام میں زیادہ تر کوشش کرنے والا لبید بن اعصم تھا پھر ذروان نامی کنوئیں میں جو بنوزریق کا تھا اسے ڈال دیا پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے سر کے بال جھڑنے لگے، خیال آتا تھا کہ میں عورتوں کے پاس ہو آیا حالانکہ آتے نہ تھے، گو آپ اسے دور کرنے کی کوشش میں تھے لیکن وجہ معلوم نہ ہوتی تھی چھ ماہ تک یہی حال رہا پھر وہ واقعہ ہوا جو اوپر بیان کیا کہ فرشتوں کے ذریعے آپ کو اس کا تمام حال علم ہو گیا اور آپ نے سیدنا علی، سیدنا زبیر اور سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کو بھیج کر کنوئیں میں سے وہ سب چیزیں نکلوائیں ان میں ایک تانت تھی جس میں میں بارہ گرہیں لگی ہوئی تھیں اور ہر گرہ پر ایک سوئی چبھی ہوئی تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں سورتیں اتاریں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت ان کی پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک گرہ اس کی خودبخود کھلتی جاتی تھی، جب یہ دونوں سورتیں پوری ہوئیں وہ سب گرہیں کھل گئیں اور آپ بالکل شفایاب ہو گئے۔
10928

ادھر جبرائیل علیہ السلام نے وہ دعا پڑھی جو اوپر گزر چکی ہے، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہمیں اجازت دیجئیے کہ ہم اس خبیث کو پکڑ کر قتل کر دیں آپ نے فرمایا: نہیں، اللہ نے مجھے تو تندرستی دے دی اور میں لوگوں میں شر و فساد پھیلانا نہیں چاہتا۔‏‏‏‏ یہ روایت تفسیر ثعلبی میں بلا سند مروی ہے اس میں غربات بھی ہے اور اس کے بعض حصے میں سخت نکارت ہے اور بعض کے شواہد بھی ہیں جو پہلے بیان ہو چکے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
10929



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.