تفسير ابن كثير



سورۃ قريش
قریشیوں کے سات فضائل:

اس کی فضیلت میں ایک غریب حدیث بیہقی کی کتاب خلافیات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے قریشیوں کو سات فضیلتیں دی ہیں ایک تو یہ کہ میں ان میں سے ہوں، دوسرے یہ کہ نبوت ان میں ہے، تیسرے یہ کہ بیت اللہ کے پاسبان یہ ہیں، چوتھے یہ کہ چاہ زمزم کے ساقی یہ ہیں، پانچویں یہ کہ اللہ نے انہیں ہاتھی والوں پر غالب کیا، چھٹے یہ کہ دس سال تک انہوں نے اللہ کی عبادت کی جبکہ اور کوئی عبادت اللہ کی نہ کرتا تھا، ساتویں یہ کہ ان کے بارے میں قرآن کریم کی یہ سورت نازل ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بسم الله»، الخ پڑھ کر یہ سورت تلاوت کی۔ [مستدرك حاكم:536/2،إسناده ضعيف‏‏‏‏]


[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ﴿﴾
شروع کرتا ہوں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔


لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ[1] إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّيْفِ[2] فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ[3] الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ[4]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] قریش کے دل میں محبت ڈالنے کی وجہ سے۔ [1] ان کے دل میں سردی اور گرمی کے سفر کی محبت ڈالنے کی وجہ سے۔ [2] تو ان پر لازم ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں۔ [3] وہ جس نے انھیں بھوک سے ( بچا کر) کھانا دیا اور خوف سے (بچا کر) امن دیا۔ [4]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] قریش کے مانوس کرنے کے لئے [1] (یعنی) انہیں جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے لئے۔ (اس کے شکریہ میں) [2] پس انہیں چاہئے کہ اسی گھر کے رب کی عبادت کرتے رہیں [3] جس نے انہیں بھوک میں کھانا دیا اور ڈر (اور خوف) میں امن (وامان) دیا [4]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] قریش کے مانوس کرنے کے سبب [1] (یعنی) ان کو جاڑے اور گرمی کے سفر سے مانوس کرنے کے سبب [2] لوگوں کو چاہیئے کہ (اس نعمت کے شکر میں) اس گھر کے مالک کی عبادت کریں [3] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے امن بخشا [4]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4،

امن و امان کی ضمانت ٭٭

موجودہ عثمانی قرآن کی ترتیب میں یہ سورت سورۃ الفیل سے علیحدہ ہے اور دونوں کے درمیان «بسم الله» کی آیت کا فاصلہ ہے، مضمون کے اعتبار سے یہ سورت پہلی سے ہی متعلق ہے جیسے کہ محمد بن اسحاق عبدالرحمن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ وغیرہ نے تصریح کی ہے اس بنا پر معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے مکہ سے ہاتھیوں کو روکا اور ہاتھی والوں کو ہلاک کیا۔ یہ قریشیوں کو الفت دلانے اور انہیں اجتماع کے ساتھ باامن اس شہر میں رہنے سہنے کے لیے تھا۔

اور یہ مراد بھی کی گئی ہے کہ یہ قریشی جاڑوں اور گرمیوں میں کیا دور دراز کے سفر امن و امان سے طے کر سکتے تھے کیونکہ مکہ جیسے محترم شہر میں رہنے کی وجہ سے ہر جگہ ان کی عزت ہوتی تھی بلکہ ان کے ساتھ بھی جو ہوتا تھا امن و امان سے سفر طے کر لیتا تھا اسی طرح وطن میں ہر طرح کا امن انہیں حاصل ہوتا تھا۔

جیسے اور جگہ قرآن کریم میں ہے «أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا آمِنًا وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ» [29-العنكبوت:67] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے حرم کو امن والی جگہ بنا دیا ہے اس کے آس پاس تو لوگ اچک لیے جاتے ہیں “، لیکن یہاں کے رہنے والے نڈر ہیں۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں «لِإِيلَافِ»، میں پہلا «لام» تعجب کا «لام» ہے اور دونوں سورتیں بالکل جداگانہ ہیں جیسا کہ مسلمانوں کا اجماع ہے۔ تو گویا یوں فرمایا جا رہا ہے کہ تم قریشیوں کے اس اجتماع اور الفت پر تعجب کرو کہ میں نے انہیں کیسی بھاری نعمت عطا فرما رکھی ہے انہیں چاہیئے کہ میری اس نعمت کا شکر اس طرح ادا کریں کہ صرف میری ہی عبادت کرتے رہیں۔

جیسے اور جگہ ہے «إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَـٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِي حَرَّمَهَا وَلَهُ كُلُّ شَيْءٍ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ» [27-النمل:91] ‏‏‏‏، یعنی ” اے نبی تم کہہ دو کہ مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرم بنایا جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا مطیع اور فرمانبردار رہوں “۔
10868

پھر فرماتا ہے وہ رب بیت جس نے انہیں بھوک میں کھلایا اور خوف میں نڈر رکھا انہیں چاہیئے کہ اس کی عبادت میں کسی چھوٹے بڑے کو شریک نہ ٹھہرائیں جو اللہ کے اس حکم کی بجا آوری کرے گا وہ تو دنیا کے اس امن کے ساتھ آخرت کے دن بھی امن و امان سے رہے گا، اور اس کی نافرمانی کرنے سے یہ امن بھی بےامنی ہے اور آخرت کا امن بھی ڈر خوف اور انتہائی مایوسی سے بدل جائے گا۔

جیسے اور جگہ فرمایا: «وَضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّـهِ فَأَذَاقَهَا اللَّـهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ» * «وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ» [16-النحل:112-113] ‏‏‏‏ یعنی ” اللہ تعالیٰ ان بستی والوں کی مثال بیان فرماتا ہے جو امن و اطمینان کے ساتھ تھے ہر جگہ سے بافراغت روزیاں کھچی چلی آتی تھیں لیکن انہیں اللہ کی ناشکری کرنے کی سوجھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں بھوک اور خوف کا لباس چکھا دیا یہی ان کے کرتوت کا بدلہ تھا ان کے پاس ان ہی میں سے اللہ کے بھیجے ہوئے آئے لیکن انہوں نے انہیں جھٹلایا اس ظلم پر اللہ کے عذابوں نے انہیں گرفتار کر لیا “۔

ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریشیو! تمہیں تو اللہ یوں راحت و آرام پہنچائے گھر بیٹھے کھلائے پلائے چاروں طرف بدامنی کی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور تمہیں امن و امان سے میٹھی نیند سلائے پھر تم پر کیا مصیبت ہے جو تم اپنے اس پروردگار کی توحید سے جی چراؤ اور اس کی عبادت میں دل نہ لگاؤ بلکہ اس کے سوا دو سروں کے آگے سر جھکاؤ ۔ [مسند احمد:460/6:اسناد ضعیف] ‏‏‏‏

«الْحَمْدُ لِلَّـه» سورۃ قريش کی تفسیر ختم ہوئی۔
10869



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.