[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جب زمین سخت ہلا دی جائے گی، اس کا سخت ہلایا جانا۔ [1] اور زمین اپنے بوجھ نکال باہر کرے گی ۔ [2] اور انسان کہے گا اسے کیا ہے؟ [3] اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔ [4] اس لیے کہ تیرے رب نے اسے وحی کی ہو گی۔ [5] اس دن لوگ الگ الگ ہو کر واپس لوٹیں گے، تاکہ انھیں ان کے اعمال دکھائے جائیں۔ [6] تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔ [7] اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا ۔ [8] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جب زمین پوری طرح جھنجھوڑ دی جائے گی [1] اور اپنے بوجھ باہر نکال پھینکے گی [2] انسان کہنے لگے گا کہ اسے کیا ہوگیا؟ [3] اس دن زمین اپنی سب خبریں بیان کردے گی [4] اس لئے کہ تیرے رب نے اسے حکم دیا ہوگا [5] اس روز لوگ مختلف جماعتیں ہو کر (واپس) لوٹیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں [6] پس جس نے ذره برابر نیکی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا [7] اور جس نے ذره برابر برائی کی ہوگی وه اسے دیکھ لے گا [8]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی [1] اور زمین اپنے (اندر) کے بوجھ نکال ڈالے گی [2] اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوا ہے؟ [3] اس روز وہ اپنے حالات بیان کردے گی [4] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کو حکم بھیجا (ہوگا) [5] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں [6] تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا [7] اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا [8]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8،
مرحلہ وار قیامت ٭٭
زمین اپنے نیچے سے اوپر تک کپکپانے لگے گی اور جتنے مردے اس میں ہیں سب نکال پھینکے گی۔ جیسے اور جگہ ہے «يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ»[22-الحج:1] یعنی ” لوگو اپنے رب سے ڈرو یقین مانو کہ قیامت کا زلزلہ اس دن کا بھونچال بڑی چیز ہے “۔
اور جگہ ارشاد ہے «وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّتْ» * «وَأَلْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ»[84-الانشقاق:3-4] یعنی ” جبکہ زمین کھینچ کھانچ کر برابر ہموار کر دی جائیگی اور اس میں جو کچھ ہے وہ اسے باہر ڈال دے گی اور بالکل خالی ہو جائیگی “۔
صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”زمین اپنے کلیجے کے ٹکڑوں کو اگل دے گی، سونا چاندی مثل ستونوں کے باہر نکل پڑے گا، قاتل اسے دیکھ کر افسوس کرتا ہوا کہے گا کہ ہائے اسی مال کے لیے میں نے فلاں کو قتل کیا تھا، آج یہ یوں ادھر ادھر بکھر رہا ہے کوئی آنکھ بھر کر دیکھتا بھی نہیں، اسی طرح صلہ رحمی توڑنے والا بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں آ کر رشتہ داروں سے میں سلوک نہیں کرتا تھا، چور بھی کہے گا کہ اسی کی محبت میں میں نے ہاتھ کٹوا دئیے تھے غرض وہ مال یونہی بکھرا پھرے گا کوئی نہیں لے گا“[صحیح مسلم:1013] ، انسان اس وقت ہکا بکا رہ جائے گا اور کہے گا یہ تو ہلنے جلنے والی نہ تھی بلکہ ٹھہری ہوئی بوجھل اور جمی ہوئی تھی اسے کیا ہو گیا کہ یوں بید کی طرح تھرانے لگی اور ساتھ ہی جب دیکھے گا کہ تمام پہلی پچھلی لاشیں بھی زمین نے اگل دیں تو اور حیران و پریشان ہو جائے گا کہ آخر اسے کیا ہو گیا ہے؟ پس زمین بالکل بدل دی جائے گی اور آسمان بھی اور سب لوگ اس قہار اللہ کے سامنے کھڑے ہو جائیں گے زمین کھلے طور پر صاف صاف گواہی دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں فلاں زیادتی اس شخص پر کی ہے۔
10785
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا: ”جانتے بھی ہو کہ زمین کی بیان کردہ خبریں کیا ہوں گی“، لوگوں نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ہی کو علم ہے، تو آپ نے فرمایا: ”جو جو اعمال بنی آدم نے زمین پر کیے ہیں وہ تمام وہ ظاہر کر دے گی کہ فلاں فلاں شخص نے فلاں نیکی یا بدی فلاں جگہ فلاں وقت کی ہے“۔ [سنن ترمذي:3353:قال الشيخ الألباني:ضعيف الإسناد] امام ترمذی اس حدیث کو حسن صحیح غریب بتلاتے ہیں
معجم طبرانی میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”زمین سے بچو یہ تمہاری ماں ہے جو شخص جو نیکی بدی اس پر کرتا ہے یہ سب کھول کھول کر بیان کر دے گی“۔ [طبرانی:4596:ضعیف]
یہاں «وحی» سے مراد حکم دینا ہے «اوحی» اور اس کے ہم معنی افعال کا صلہ حرف «لام» بھی آتا ہے «الی» بھی۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ اسے فرمائے گا کہ بتا اور وہ بتاتی جائیگی اس دن لوگ حساب کی جگہ سے مختلف قسموں کی جماعتیں بن بن کر لوٹیں گے کوئی بد ہو گا کوئی نیک کوئی جنتی بنا ہو گا کوئی جہنمی۔
یہ معنی بھی ہیں کہ یہاں سے جو الگ الگ ہوں گے تو پھر اجتماع نہ ہو گا یہ اس لیے کہ وہ اپنے اعمال کو جان لیں اور بھلائی برائی کا بدلہ پا لیں گے اسی لیے آخر میں بھی بیان فرما دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ گھوڑوں والے تین قسم کے ہیں، ایک اجر پانے والا، ایک پردہ پوشی والا اور ایک بوجھ اور گناہ والا اجر والا تو وہ ہے جو گھوڑا پالتا ہے جہاد کی نیت سے اگر اس کے گھوڑے کی اگاڑی پچھاڑی ڈھیلی ہو گئی اور یہ ادھر ادھر سے چرتا رہا تو یہ بھی گھوڑے والے کے لیے اجر کا باعث ہے اور اگر اس کی رسی ٹوٹ گئی اور یہ ادھر ادھر چلا گیا تو اس کے نشان قدم اور لید کا بھی اسے ثواب ملتا ہے اگر یہ کسی نہر پر جا کر پانی پی لے چاہے پلانے کا ارادہ نہ ہو تو بھی ثواب مل جاتا، یہ گھوڑا تو اس کے لیے سراسر اجر و ثواب ہے دوسرا وہ شخص جس نے اس لیے پال رکھا ہے کہ دوسروں سے بےپرواہ اور کسی سے سوال کی ضرورت نہ ہو لیکن اللہ کا حق نہ تو اس بارے میں بھولتا ہے نہ اس کی سواری میں پس یہ اس کے لیے پردہ ہے تیسرا وہ شخص ہے جس نے فخر و ریا کاری اور ظلم و ستم کے لیے پال رکھا ہے پس یہ اس کے ذمہ بوجھ اور اس پر گناہ کا بار ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ گدھوں کے بارے میں کیا حکم ہے آپ نے فرمایا: ”مجھ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے سوائے تنہا اور جامع آیت کے اور کچھ نازل نہیں ہوا کہ ذرہ برابر نیکی یا بدی ہر شخص دیکھ لے گا“۔ [صحیح مسلم:987]
10786
سیدنا صعصعہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ آیت سن کر کہہ دیا کہ صرف یہی آیت کافی ہے اور زیادہ اگر نہ بھی سنوں تو کوئی ضرورت نہیں۔ [مسند احمد:59/5:صحیح]
صحیح بخاری میں بروایت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ آگ سے بچو اگرچہ آدھی کھجور کا صدقہ ہی ہو ۔ [صحیح بخاری:1413]
اسی طرح صحیح حدیث میں ہے کہ نیکی کے کام کو ہلکا نہ سمجھو گو اتنا ہی کام ہو کہ تو اپنے ڈول میں سے ذرا سا پانی کسی پیاسے کو پلوا دے یا اپنے کسی مسلمان بھائی سے کشادہ روئی اور خندہ پیشانی سے ملاقات کر لے ۔ [مسند احمد:63/5:صحیح]
دوسری ایک صحیح حدیث میں ہے، اے ایمان والی عورتو! تم پڑوسن کے بھیجے ہوئے تحفے یا ہدئے کو حقیر نہ سمجھو گو ایک کھر ہی آیا ہو ۔ [صحیح بخاری:2566]
اور حدیث میں ہے کہ سائل کو کچھ نہ کچھ دے دو گو جلا ہوا کھر ہی ہو ۔ [مسند احمد:435/6]
مسند احمد کی حدیث میں ہے، اے عائشہ! گناہوں کو حقیر نہ سمجھو یاد رکھو کہ ان کا بھی حساب لینے والا ہے ۔ [مسند احمد:70/6]
ابن جریر میں ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے کہ یہ آیت اتری تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا اور پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! کیا میں ایک ایک ذرے برابر کا بدلہ دیا جاؤں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے صدیق دنیا میں جو جو تکلیفیں تمہیں پہنچی ہیں یہ تو اس میں آ گئیں اور نیکیاں تمہارے لیے اللہ کے ہاں ذخیرہ بنی ہوئی ہیں اور ان سب کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن تمہیں دیا جائے گا“۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37747]
ابن جریر کی ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سورت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نازل ہوئی تھی آپ اسے سن کر بہت روئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب پوچھا: تو آپ نے فرمایا: مجھے یہ سورت رلا رہی ہے آپ نے فرمایا: ”اگر تم خطا اور گناہ نہ کرتے کہ تمہیں بخشا جائے اور معاف کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کسی اور امت کو پیدا کرتا جو خطا اور گناہ کرتے اور اللہ انہیں بخشتا“۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:37760:حسن]
10787
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا مجھے اپنے سب اعمال دیکھنے پڑیں گے آپ نے فرمایا: ”ہاں“، پوچھا: بڑے بڑے، فرمایا: ”ہاں“، پوچھا: اور چھوٹے چھوٹے بھی، فرمایا: ”ہاں“، میں نے کہا، ہائے افسوس! آپ نے فرمایا: ”ابوسعید خوش ہو جاؤ، نیکی تو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک اللہ جسے چاہے دے گا ہاں گناہ اسی کے مثل ہوں گے یا اللہ تعالیٰ اسے بھی بخش دے گا، سنو! کسی شخص کو صرف اس کے اعمال نجات نہ دے سکیں گے“، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا: ”نہ مجھے ہی مگر یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمت سے مجھے ڈھانپ لے“۔ (اسنادہ ضعیف: اس کی سند ابن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے ـ) اس کے راویوں میں ایک ابن لہیعہ ہیں یہ روایت صرف انہی سے مروی ہے۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب آیت «وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا»[76-الإنسان:8] نازل ہوئی یعنی مال کی محبت کے باوجود مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں تو لوگ یہ سمجھ گئے کہ اگر ہم تھوڑی سی چیز راہ اللہ دیں گے تو کوئی ثواب نہ ملے گا مسکین ان کے دروازے پر آتا لیکن ایک آدھ کھجور یا روٹی کا ٹکڑا وغیرہ دینے کو حقارت خیال کر کے یونہی لوٹا دیتے تھے کہ اگر دیں تو کوئی اچھی محبوب و مرغوب چیز دیں ادھر تو ایک جماعت یہ تھی، دوسری جماعت وہ تھی جنہیں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں پر ہماری پکڑ نہ ہو گی مثلا کبھی کوئی جھوٹ بات کہہ دی کبھی ادھر ادھر نظریں ڈال لیں، کبھی غیبت کر لی وغیرہ جہنم کی وعید تو کبیرہ گناہوں پر ہے تو یہ آیت «فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ»[99-الزلزلہ:7] نازل ہوئی۔ اور انہیں بتایا گیا کہ چھوٹی سی نیکی کو حقیر نہ سمجھو یہ بڑی ہو کر ملے گی اور تھوڑے سے گناہ کو بھی بےجان نہ سمجھو کہیں تھوڑا تھوڑا مل کر بہت نہ بن جائے «ذرہ» کے معنی چھوٹی چیونٹی کے ہیں، یعنی نیکیوں اور برائیوں کو چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اپنے نامہ اعمال میں دیکھ لے گا بدی تو ایک ہی لکھی جاتی ہے نیکی ایک کے بدلے دس بلکہ جس کے لیے اللہ چاہے اس سے بھی بہت زیادہ بلکہ ان نیکیوں کے بدلے برائیاں بھی معاف ہو جاتی ہیں ایک ایک کے بدلے دس دس بدیاں معاف ہو جاتی ہیں پھر یہ بھی ہے کہ جس کی نیکی برائی سے ایک ذرے کے برابر بڑھ گئی وہ جنتی ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”گناہوں کو ہلکا نہ سمجھا کرو یہ سب جمع ہو کر آدمی کو ہلاک کر ڈالتے ہیں“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برائیوں کی مثال بیان کی کہ جیسے کچھ لوگ کسی جگہ اترے پھر ایک ایک دو دو لکڑیاں چن لائے تو لکڑیوں کا ڈھیر لگ جائے گا پھر اگر انہیں سلگایا جائے تو اس وقت اس آگ پر جو چاہیں پکا سکتے ہیں (اسی طرح تھوڑے تھوڑے گناہ بہت زیادہ ہو کر آگ کا کام کرتے ہیں اور انسان کو جلا دیتے ہیں) ۔ [مسند احمد:402/1:صحیح لغیرہ]
سورۃ اذازلزلت کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»