[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا، پس جگہ دی۔ [6] اور اس نے تجھے راستے سے ناواقف پایا تو راستہ دکھا دیا۔ [7] اور اس نے تجھے تنگدست پایا تو غنی کر دیا۔ [8] پس لیکن یتیم، پس (اس پر) سختی نہ کر۔ [9] اور لیکن سائل ، پس (اسے) مت جھڑک۔ [10] اور لیکن اپنے رب کی نعمت، پس (اسے) بیان کر۔ [11] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا اس نے تجھے یتیم پا کر جگہ نہیں دی [6] اور تجھے راه بھوﻻ پا کر ہدایت نہیں دی [7] اور تجھے نادار پاکر تونگر نہیں بنا دیا؟ [8] پس یتیم پر تو بھی سختی نہ کیا کر [9] اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ [10] اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا ره [11]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ (بےشک دی) [6] اور رستے سے ناواقف دیکھا تو رستہ دکھایا [7] اور تنگ دست پایا تو غنی کر دیا [8] تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا [9] اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا [10] اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا [11]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 6، 7، 8، 9، 10، 11،
باب
ابن ابی شیبہ میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت دنیا پر پسند کر لی ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَىٰ» کی تلاوت فرمائی ۔ [ابن ابی شیبہ377/7:ضعیف]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یتیمی کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کا بچاؤ کیا۔ اور آپ کی حفاظت کی اور پرورش کی اور مقام و مرتبہ عنایت فرمایا۔ آپ کے والد کا انتقال تو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی ہو چکا تھا بعض کہتے ہیں ولادت کے بعد ہوا چھ سال کی عمر میں والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہو گیا۔
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دادا کی کفالت میں تھے لیکن جب آٹھ سال کی آپ کی عمر ہوئی تو دادا کا سایہ بھی اٹھ گیا۔ اب آپ اپنے چچا ابوطالب کی پرورش میں آئے، ابوطالب دل و جان سے آپ کی نگرانی اور امداد میں رہے۔ آپ کی پوری عزت و توقیر کرتے اور قوم کی مخالفت کے چڑھتے طوفان کو روکتے رہتے تھے اور اپنی جان کو بطور ڈھال کے پیش کر دیا کرتے تھے۔
کیونکہ چالیس سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت مل چکی تھی اور قریش سخت تر مخالفت بلکہ دشمن جان ہو گئے تھے ابوطالب باوجود بت پرست مشرک ہونے کے آپ کا ساتھ دیتا تھا۔ اور مخالفین سے لڑتا بھڑتا رہتا تھا۔ یہ تھی منجانب اللہ حسن تدبیر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یتیمی کے ایام اسی طرح گزرے اور مخالفین سے آپ کی خدمت اس طرح لی، یہاں تک کہ ہجرت سے کچھ پہلے ابوطالب بھی فوت ہو گئے۔
اب سفہاء و جہلا قریش اٹھ کھڑے ہوئے تو پروردگار عالم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ شریف کی طرف ہجرت کرنے کی رخصت عطا فرمائی اور اوس و خزرج جیسی قوموں کو آپ کا انصار بنا دیا۔ ان بزرگوں نے آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو جگہ دی۔ مدد کی، حفاظت کی اور مخالفین سے سینہ سپر ہو کر مردانہ وار لڑائیاں کیں۔ اللہ ان سب سے خوش رہے۔ یہ سب کا سب اللہ کی حفاظت اور اس کی عنایت احسان اور اکرام سے تھا۔
پھر فرمایا کہ ” راہ بھولا پا کر صحیح راستہ دکھا دیا “۔ جیسے اور جگہ ہے «مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ»[42-الشورى:52] الخ، یعنی ” اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمہاری طرف روح کی وحی کی۔ تم یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے؟ تمہیں نہ کتاب کی خبر تھی بلکہ ہم نے اسے نور بنا کر جسے چاہا ہدایت کر دی “۔
بعض کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بچپن میں مکہ کی گلیوں میں گم ہو گئے تھے اس وقت اللہ نے لوٹا دیا۔ بعض کہتے ہیں شام کی طرف اپنے چچا کے ساتھ جاتے ہوئے رات کو شیطان نے آپ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر راہ سے ہٹا کر جنگل میں ڈال دیا۔ پس جبرائیل علیہ السلام آئے اور پھونک مار کر شیطان کو تو حبشہ میں ڈال دیا اور سواری کو راہ لگا دیا۔ بغوی نے یہ دونوں قول نقل کئے ہیں۔
پھر فرماتا ہے کہ ” بال بچوں والے ہوتے ہوئے تنگ دست پا کر ہم نے آپ کو غنی کر دیا “، پس فقیر صابر اور غنی شاکر ہونے کے درجات آپ کو مل گئے۔ «صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ» ۔
10694
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ سب حال نبوت سے پہلے کے ہیں۔“ بخاری و مسلم وغیرہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تونگری مال و اسباب کی زیادتی سے نہیں بلکہ حقیقی تونگری وہ ہے جس کا دل بے پرواہ ہو“۔ [صحیح بخاری:6446]
صحیح مسلم شریف میں ہے اس نے فلاح پا لی جسے اسلام نصیب ہوا اور جو کافی ہوا، اتنا رزق بھی ملا اللہ کے دئیے ہوئے پر قناعت کی توفیق بھی ملی ۔ [صحیح مسلم:1054]
پھر فرماتا ہے کہ ” یتیم کو حقیر جان کر نہ ڈانٹ ڈپٹ کر بلکہ اس کے ساتھ احسان و سلوک کر اور اپنی یتیمی کو نہ بھول “۔
قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یتیم کے لیے ایسا ہو جانا چاہیئے جیسے سگا باپ اولاد پر مہربان ہوتا ہے۔“
” سائل کو نہ جھڑک جس طرح تم بے راہ تھے اور اللہ نے ہدایت دی تو اب جو تم سے علمی باتیں پوچھے صحیح راستہ دریافت کرے تو تم اسے ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو، غریب مسکین ضعیف بندوں پر تکبر تجبر نہ کرو، انہیں ڈانٹو ڈپٹو نہیں برا بھلا نہ کہو سخت سست نہ بولو، اگر مسکین کو کچھ نہ دے سکے تو بھی بھلا اچھا جواب دے۔ نرمی اور رحم کا سلوک کر “۔
پھر فرمایا کہ ” اپنے رب کی نعمتیں بیان کرتے رہو “۔ یعنی جس طرح تمہاری فقیری کو ہم نے تونگری سے بدل دیا، تم بھی ہماری ان نعمتوں کو بیان کرتے رہو، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں یہ بھی تھا «وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِك مُثْنِينَ بِهَا عَلَيْك قَابِلِيهَا وَأَتِمَّهَا عَلَيْنَا» یعنی اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کی شکر گزاری کرنے والا، ان کی وجہ سے تیری ثنا بیان کرنے والا، ان کا اقرار کرنے والا کر دے اور ان نعمتوں کو ہم پر پورا کر دے ۔ [سنن ابوداود:969،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابونضرہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ نعمتوں کی شکر گزاری میں یہ بھی داخل ہے کہ ان کا بیان ہو۔
10695
مسند احمد کی حدیث میں ہے جس نے تھوڑے پر شکر نہ ادا کیا اس نے زیادہ پر بھی شکر نہیں کیا۔ جس نے لوگوں کی شکر گزاری نہ کی اس نے اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کیا۔ نعمتوں کا بیان بھی شکر ہے اور ان کا بیان نہ کرنا بھی ناشکری ہے، جماعت کے ساتھ رہنا رحمت کا سبب ہے اور تفرقہ عذاب کا باعث ہے ۔ [مسند احمد:375/4:حسن] اس کی اسناد ضعیف ہے۔
بخاری و مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ! انصار سارا کا سارا اجر لے گئے۔ فرمایا: ”نہیں جب تک کہ تم ان کے لیے دعا کیا کرو اور ان کی تعریف کرتے رہو“۔ [سنن ابوداود:4812،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابوداؤد میں ہے اس نے اللہ کا شکر ادا نہ کیا جس نے بندوں کا شکر ادا نہ کیا ۔ [سنن ابوداود:4811،قال الشيخ الألباني:صحیح]
ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ جسے کوئی نعمت ملی اور اس نے اسے بیان کیا تو وہ شکر گزار ہے اور جس نے اسے چھپایا اس نے ناشکری کی ۔ [سنن ابوداود:4810،قال الشيخ الألباني:صحیح]
اور روایت میں ہے کہ جسے کوئی عطیہ دیا جائے اسے چاہیئے کہ اگر ہو سکے تو بدلہ اتار دے اگر نہ ہو سکے تو اس کی ثناء بیان کرے جس نے ثناء کی وہ شکر گزار ہوا اور جس نے اس نعمت کا اظہار نہ کیا اس نے ناشکری کی ۔ [سنن ابوداود:4814،قال الشيخ الألباني:صحیح]
10696
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے۔“ ایک روایت میں ہے کہ ”قرآن مراد ہے۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”طلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کرو۔“ محمد بن اسحاق کہتے ہیں ”جو نعمت و کرامت نبوت کی تمہیں ملی ہے اسے بیان کرو، اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو۔“
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے والوں میں سے جن پر آپ کو اطمینان ہوتا در پردہ سب سے پہلے پہل دعوت دینی شروع کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نماز فرض ہوئی جو آپ نے ادا کی۔
سورۃ الضحیٰ کی تفسیر ختم ہوئی اللہ کے احسان پر اس کا شکر ہے۔