[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بلاشبہ ہمارے ہی ذمے یقینا راستہ بتانا ہے۔ [12] اور بلاشبہ ہمارے ہی اختیار میں یقینا آخرت اور دنیا ہے۔ [13] پس میں نے تمھیں ایک ایسی آگ سے ڈرا دیا ہے جو شعلے مارتی ہے۔ [14] جس میں اس بڑے بدبخت کے سوا کوئی داخل نہیں ہوگا۔ [15] جس نے جھٹلایا اور منہ موڑا۔ [16] اور عنقریب اس سے وہ بڑا پرہیز گار دور رکھا جائے گا۔ [17] جو اپنامال (اس لیے) دیتا ہے کہ پاک ہو جائے۔ [18] حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔ [19] مگر ( وہ تو صرف) اپنے اس رب کا چہرہ طلب کرنے کے لیے (د یتا ہے)جو سب سے بلند ہے۔ [20] اور یقینا عنقریب وہ راضی ہو جائے گا۔ [21] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] بیشک راه دکھا دینا ہمارے ذمہ ہے [12] اور ہمارے ہی ہاتھ آخرت اور دنیا ہے [13] میں نے تو تمہیں شعلے مارتی ہوئی آگ سے ڈرا دیا ہے [14] جس میں صرف وہی بدبخت داخل ہوگا [15] جس نے جھٹلایا اور (اس کی پیروی سے) منھ پھیر لیا [16] اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہو گا [17] جو پاکی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال دیتا ہے [18] کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہو [19] بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ وبلند کی رضا چاہنے کے لئے [20] یقیناً وه (اللہ بھی) عنقریب رضامند ہو جائے گا [21]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہمیں تو راہ دکھا دینا ہے [12] اور آخرت او ردنیا ہماری ہی چیزیں ہیں [13] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کر دیا [14] اس میں وہی داخل ہو گا جو بڑا بدبخت ہے [15] جس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا [16] اور جو بڑا پرہیزگار ہے وہ (اس سے) بچا لیا جائے گا [17] جو مال دیتا ہے تاکہ پاک ہو [18] اور (اس لیے) نہیں (دیتا کہ) اس پر کسی کا احسان (ہے) جس کا وہ بدلہ اتارتا ہے [19] بلکہ اپنے خداوند اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے دیتا ہے [20] اور وہ عنقریب خوش ہو جائے گا [21]۔ ........................................
یعنی ” حلال و حرام کا ظاہر کر دینا ہمارے ذمہ ہے “، یہ بھی معنی ہیں کہ ” جو ہدایت پر چلا وہ یقیناً ہم تک پہنچ جائیگا “۔
جیسے فرمایا «وَعَلَى اللَّـهِ قَصْدُ السَّبِيلِ»[16-النحل:9] ” آخرت اور دنیا کی ملکیت ہماری ہی ہے “۔ ” میں نے بھڑکتی ہوئی آگ سے تمہیں ہوشیار کر دیا ہے “۔
مسند احمد میں ہے کہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے خطبہ کی حالت میں سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت بلند آواز سے فرما رہے تھے یہاں تک کہ میری اس جگہ سے بازار تک آواز پہنچے اور باربار فرماتے جاتے تھے ”لوگو! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا چکا۔ لوگو! میں تمہیں جہنم کی آگ سے ڈرا رہا ہوں“، باربار یہ فرما رہے تھے یہاں تک کہ چادر مبارک کندھوں سے سرک کر پیروں میں گر پڑی ۔ [مسند احمد:272/4:حسن]
صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے ہلکے عذاب والا جہنمی قیامت کے دن وہ ہو گا جس کے دونوں قدموں تلے دو انگارے رکھ دئیے جائیں جس سے اس کا دماغ ابل رہا ہو“۔ [صحیح بخاری:6561]
10674
مسلم شریف کی حدیث میں ہے ہلکے عذاب والا ہے جہنمی ہو گا جس کی دونوں جوتیاں اور دونوں تسمے آگ کے ہوں گے جن سے اس کا دماغ اس طرح ابل رہا وہ گا جس طرح ہنڈیا جوش کھا رہی ہو باوجود یہ کہ سب سے ہلکے عذاب والا یہی ہے لیکن اس کے خیال میں اس سے زیادہ عذاب والا اور کوئی نہ ہو گا ۔ [صحیح مسلم:213]
اس جہنم میں صرف وہی لوگ گھیر گھار کر بدترین عذاب کیے جائیں گے جو بدبخت تر ہوں جن کے دل میں کذب بغض ہو اور اسلام پر عمل نہ ہو۔
مسند احمد کی حدیث میں بھی ہے کہ جہنم میں صرف شقی لوگ جائیں گے۔ لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں؟ فرمایا: ”جو اطاعت گزار نہ ہوں اور نہ اللہ کے خوف سے کوئی بدی چھوڑتا ہو“۔ [مسند احمد:349/2:ضعیف]
مسند کی اور حدیث میں ہے میری ساری امت جنت میں جائیگی سوائے اس کے جو جنت میں جانے سے انکار کریں، لوگوں نے پوچھا جنت میں جانے سے انکار کرنے والا کون ہے؟ فرمایا: جو میری اطاعت کرے وہ جنت میں گیا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے گویا جنت میں جانے سے انکار کر دیا ۔ [صحیح بخاری:7280]
اور فرمایا ” جہنم سے دوری اسے ہو گی جو تقویٰ شعار، پرہیزگار اور اللہ کے ڈر والا ہو گا جو اپنے مال کو اللہ کی راہ میں دے تاکہ خود بھی پاک ہو جائے اور اپنی چیزوں کو بھی پاک کر لے اور دین دنیا میں پاکیزگی حاصل کر لے کیونکہ یہ شخص اس کے لیے کسی کے ساتھ سلوک نہیں کرتا کہ اس کا کوئی احسان اس پر ہے بلکہ اس لیے کہ آخرت میں جنت ملے اور وہاں اللہ کا دیدار نصیب ہو “۔
پھر فرماتا ہے کہ ” بہت جلد بالیقین ایسی پاک صفتوں والا شخص راضی ہو جائے گا “۔
10675
اکثر مفسرین کہتے ہیں یہ آیتیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری ہیں یہاں تک کہ بعض مفسرین نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے بے شک سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس میں داخل ہیں اور اس کی عمومیت میں ساری امت سے پہلے ہیں گو الفاظ آیت کے عام ہیں لیکن آپ سے اول اس کے مصداق ہیں ان تمام اوصاف میں اور کل کی کل نیکیوں میں سب سے پہلے اور سب سے آگے اور سب سے بڑھے چڑھے ہوئے آپ ہی تھے۔
آپ صدیق تھے، پرہیزگار تھے، بزرگ تھے، سخی تھے۔ آپ مالوں کو اپنے مولا کی اطاعت میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد میں دل کھول کر خرچ کرتے رہتے تھے ہر ایک کے ساتھ احسان و سلوک کرتے اور کسی دنیوی فائدے کی چاہت پر نہیں کسی کے احسان کے بدلے نہیں بلکہ صرف اللہ کی مرضی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کے لیے جتنے لوگ تھے خواہ بڑے ہوں خواہ چھوٹے سب پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے احسانات کے بار تھے یہاں تک کہ سیدنا عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہما جو قبیلہ ثقیف کا سردار تھا صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جبکہ صدیق رضی اللہ عنہما نے اسے ڈانٹا ڈپٹا اور دو باتیں سنائیں تو اس نے کہا کہ اگر آپ کے احسان مجھ پر نہ ہوتے جس کا بدلہ میں نہیں دے سکا تو میں آپ کو ضرور جواب دیتا۔ [صحیح بخاری:2731] پس جبکہ عرب کے سردار اور قبائل عرب کے بادشاہ کے اوپر آپ کے اس قدر احسان تھے کہ وہ سر نہیں اٹھا سکتا تھا تو بھلا اور تو کہاں؟
اسی لیے یہاں بھی فرمایا گیا کہ ” کسی پر احسان کا بدلہ انہیں دینا نہیں بلکہ صرف دیدار اللہ کی خواہش ہے “۔
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے جو شخص جوڑا اللہ کی راہ میں خرچ کرے اسے جنت کے داروغے پکاریں گے کہ ”اے اللہ کے بندے ادھر سے آؤ یہ سب سے اچھا ہے“، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ! کوئی ضرورت تو ایسی نہیں لیکن فرمائیے تو کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ہے اور مجھے اللہ سے امید ہے کہ تم ان میں سے ہو۔“[صحیح بخاری:1897]
«اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» سورۃ اللیل کی تفسیر ختم ہوئی۔ اللہ کا احسان ہے اور اس کا شکر ہے۔