[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] جب اس کا سب سے بڑا بدبخت اٹھا۔ [12] تو ان سے اللہ کے رسول نے کہا اللہ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری (کا خیال رکھو)۔ [13] تو انھوں نے اسے جھٹلا دیا، پس اس (اونٹنی) کی کونچیں کاٹ دیں، تو ان کے رب نے انھیں ان کے گناہ کی وجہ سے پیس کر ہلاک کر دیا، پھر اس ( بستی) کو برابر کر دیا۔ [14] اور وہ اس (سزا) کے انجام سے نہیں ڈرتا۔ [15] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جب ان میں کا بڑا بدبخت اٹھ کھڑا ہوا [12] انہیں اللہ کے رسول نے فرما دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی اونٹنی اور اس کے پینے کی باری کی (حفاﻇت کرو) [13] ان لوگوں نے اپنے پیغمبر کو جھوٹا سمجھ کر اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں، پس ان کے رب نے ان کے گناہوں کے باعﺚ ان پر ہلاکت ڈالی اور پھر ہلاکت کو عام کر دیا اور اس بستی کو برابر کردیا [14] وه نہیں ڈرتا اس کے تباه کن انجام سے [15]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جب ان میں سے ایک نہایت بدبخت اٹھا [12] تو خدا کے پیغمبر (صالح) نے ان سے کہا کہ خدا کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے کی باری سے عذر کرو [13] مگر انہوں نے پیغمبر کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو خدا نے ان کےگناہ کے سبب ان پر عذاب نازل کیا اور سب کو (ہلاک کر کے) برابر کر دیا [14] اور اس کو ان کے بدلہ لینے کا کچھ بھی ڈر نہیں [15]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 12، 13، 14، 15،
آل ثمود کی تباہی کے اسباب ٭٭
اللہ تعالیٰٰ بیان فرما رہا ہے کہ ثمودیوں نے اپنی سرکشی، تکبر و تجّبر کی بناء پر اپنے رسول کی تصدیق نہ کی۔ محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «بِطَغْوَاهَا» کا مطلب یہ ہے کہ ان سب نے تکذیب کی“ لیکن پہلی بات ہی زیادہ اولیٰ ہے۔ مجاہد اور قتادہ رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی بیان کیا ہے، اس سرکشی اور تکذیب کی شامت سے یہ اس قدر بدبخت ہو گئی کہ ان میں سے جو زیادہ بد شخص تھا وہ تیار ہو گیا اس کا نام قدار بن سالف تھا اسی نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کوچیں کاٹی تھیں۔ اسی کے بارے میں فرمان ہے «فَنَادَوْا صَاحِبَهُمْ فَتَعَاطَىٰ فَعَقَرَ»[54-القمر:29] ثمودیوں کی آواز پر یہ آ گیا اور اس نے اونٹنی کو مار ڈالا، یہ شخص اس قوم میں ذی عزت تھا شریف تھا ذی نسب تھا قوم کا رئیس اور سردار تھا۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے خطبے میں اس اونٹنی کا اور اس کے مار ڈالنے والے کا ذکر کیا اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ جیسے ابوزمعہ تھا اسی جیسا یہ شخص بھی اپنی قوم میں شریف عزیز اور بڑا آدمی تھا ۔ [صحیح بخاری:4942]
امام بخاری رحمہ اللہ بھی اسے تفسیر میں اور امام مسلم رحمہ اللہ جہنم کی صفت میں لائے ہیں اور سنن ترمذی، سنن نسائی میں بھی یہ روایت تفسیر میں ہے۔
10653
ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ میں تجھے دنیا بھر کے بدبخت ترین دو شخص بتاتا ہوں ایک تو احیمر ثمود جس نے اونٹنی کو مار ڈالا اور دوسرا وہ شخص جو تیری پیشانی پر زخم لگائے گا یہاں تک کہ داڑھی خون سے تربتر ہو جائے گی ۔ [مسند احمد:263/4:حسن لغیرہ]
اللہ کے رسول صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ ”اے قوم اللہ کی اونٹنی کو برائی پہنچانے سے ڈرو، اس کے پانی پینے کے مقرر دن میں ظلم کر کے اسے پانی سے نہ روکو تمہاری اور اس کی باری مقرر ہے۔“
لیکن ان بدبختوں نے پیغمبر علیہ السلام کی نہ مانی جس گناہ کے باعث ان کے دل سخت ہو گئے اور پھر یہ صاف طور پر مقابلہ کے لیے تیار ہو گئے اور اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں، جسے اللہ تعالیٰ نے بغیر ماں باپ کے پتھر کی ایک چٹان سے پیدا کیا تھا جو صالح علیہ السلام کا معجزہ اور اللہ کی قدرت کی کامل نشانی تھی اللہ بھی ان پر غضبناک ہو گیا اور ہلاکت ڈال دی، اور سب پر ابر سے عذاب اترا۔ یہ اس لیے کہ احیمر ثمود کے ہاتھ پر اس کی قوم کے چھوٹے بڑوں نے مرد و عورت نے بیعت کر لی تھی اور سب کے مشورے سے اس نے اس اونٹنی کو کاٹا تھا اس لیے عذاب میں بھی سب پکڑے گئے۔
«وَلَا يَخَافُ» کو «فَلَا یَخَافُ» بھی پڑھا گیا ہے، مطلب یہ ہے کہ اللہ کسی کو سزا کرے تو اسے یہ خوف نہیں ہوتا کہ اس کا انجام کیا ہو گا؟ کہیں یہ بگڑ نہ بیٹھیں، یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس بدکار، احیمر نے اونٹنی کو مار تو ڈالا لیکن انجام سے نہ ڈرا، مگر پہلا قول ہی اولیٰ ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ»
«اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» سورۃ الشمس کی تفسیر ختم ہوئی۔