تفسير ابن كثير



سورۃ البلد

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ[11] وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ[12] فَكُّ رَقَبَةٍ[13] أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ[14] يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ[15] أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ[16] ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ[17] أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ[18] وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ[19] عَلَيْهِمْ نَارٌ مُؤْصَدَةٌ[20]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر (بھی) وہ مشکل گھاٹی میں نہ گھسا۔ [11] اور تجھے کس چیز نے معلوم کروایا کہ وہ مشکل گھاٹی کیا ہے؟ [12] (وہ) گردن چھڑانا ہے۔ [13] یا کسی بھوک والے دن میں کھانا کھلانا ہے۔ [14] کسی قرابت والے یتیم کو۔ [15] یا مٹی میں ملے ہوئے کسی مسکین کو۔ [16] پھر (یہ کہ) ہو وہ ان لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی اور ایک دوسرے کو رحم کرنے کی وصیت کی۔ [17] یہی لوگ دائیں ہاتھ والے ہیں۔ [18] اور جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا وہی بائیں ہاتھ والے ہیں۔ [19] ان پر (ہر طرف سے) آگ بند کی ہوئی ہوگی۔ [20]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا [11] اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا؟ [12] کسی گردن (غلام لونڈی) کو آزاد کرنا [13] یا بھوک والے دن کھانا کھلانا [14] کسی رشتہ دار یتیم کو [15] یا خاکسار مسکین کو [16] پھر ان لوگوں میں سے ہو جاتا جو ایمان ﻻتے اور ایک دوسرے کو صبر کی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں [17] یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے (خوش بختی والے) [18] اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کیا یہ کم بختی والے ہیں [19] انہی پر آگ ہوگی جو چاروں طرف سے گھیری ہوئی ہوگی [20]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مگر وہ گھاٹی پر سے ہو کر نہ گزرا [11] اور تم کیا سمجھے کہ گھاٹی کیا ہے؟ [12] کسی (کی) گردن کا چھڑانا [13] یا بھوک کے دن کھانا کھلانا [14] یتیم رشتہ دار کو [15] یا فقیر خاکسار کو [16] پھر ان لوگوں میں بھی (داخل) ہو جو ایمان لائے اور صبر کی نصیحت اور (لوگوں پر) شفقت کرنے کی وصیت کرتے رہے [17] یہی لوگ صاحب سعادت ہیں [18] اور جنہوں نے ہماری آیتوں کو نہ مانا وہ بدبخت ہیں [19] یہ لوگ آگ میں بند کر دیئے جائیں گے [20]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 11، 12، 13، 14، 15، 16، 17، 18، 19، 20،

صدقات اور اعمال صالحہ جہنم سے نجات کے ضامن ہیں ٭٭

ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں «عَقَبَةَ» جہنم کے ایک پھسلنے پہاڑ کا نام ہے۔‏‏‏‏ کعب احبار رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے جہنم میں ستر درجے ہیں۔‏‏‏‏ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ داخلے کی سخت گھاٹی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے داخل ہو جاؤ پھر اس کا داخلہ بتایا یہ کہہ کر کہ تمہیں کس نے بتایا کہ یہ گھاٹی کیا ہے؟ تو فرمایا غلام آزاد کرنا اور اللہ کے نام کھانا دینا۔‏‏‏‏

ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ نجات اور خیر کی راہوں میں کیوں نہ چلا؟ پھر ہمیں تنبیہ کی اور فرمایا ” تم کیا جانو «عَقَبَةَ» کیا ہے؟ “ آزادگی گردن یا صدقہ طعام «فَكُّ رَقَبَةٍ» جو اضافت کے ساتھ ہے اسے «فَكَّ رَقَبَةً» بھی پڑھا گیا یعنی فعل و فاعل دونوں قرأتوں کا مطلب قریباً ایک ہی ہے۔

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی مسلمان کی گردن چھڑوائے اللہ تعالیٰ اس کا ہر ایک عضو اس کے ہر عضو کے بدلے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے یہاں تک کہ ہاتھ کے بدلے ہاتھ پاؤں کے بدلے پاؤں اور شرمگاہ کے بدلے شرمگاہ ۔ علی بن حسین یعنی امام زید العابدین رحمہ اللہ نے جب یہ حدیث سنی تو سعید بن مرجانہ رحمہ اللہ راوی حدیث سے پوچھا کہ کیا تم نے خود سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ حدیث سنی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں تو آپ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ مطرف کو بلا لو جب وہ سامنے آیا تو آپ نے فرمایا جاؤ تم اللہ کے نام پر آزاد ہو۔ [صحیح بخاری:2517] ‏‏‏‏
10623

بخاری، مسلم، ترمذی اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ یہ غلام دس ہزار درہم کا خریدا ہوا تھا اور حدیث میں ہے کہ جو مسلمان کسی مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اس کی ایک ایک ہڈی کے بدلے اس کی ایک ایک ہڈی جہنم سے آزاد ہو جاتی ہے ۔ [سنن ابوداود:3965،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
10624

مسند میں ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے اور جو مسلمان غلام کو آزاد کرے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے اور اسے جہنم سے آزاد کر دیتا ہے جو شخص اسلام میں بوڑھا ہو اسے قیامت کے دن نور ملے گا ۔ [مسند احمد:386/4:صحیح] ‏‏‏‏

اور روایت میں یہ بھی ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں تیر چلائے خواہ وہ لگے یا نہ لگے اسے اولاد اسمٰعیل میں سے ایک غلام کے آزاد کرنے کا ثواب ملے گا ۔ [سنن ابوداود:3966،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے جس مسلمان کے تین بچے بلوغت سے پہلے مر جائیں اسے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخل کرے گا اور جو شخص اللہ کی راہ میں جوڑے دے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دے گا جس سے چاہے چلا جائے ۔ [مسند احمد:386/4:صحیح لغیره] ‏‏‏‏ ان تمام احادیث کی سندیں نہایت عمدہ ہیں۔

ابوداؤد میں ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسی حدیث سنائیے جس میں کوئی کمی زیادتی نہ ہو تو، آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے تم میں سے کوئی پڑھے اور اس کا قرآن شریف اس کے گھر میں ہو تو کیا وہ کمی زیادتی کرتا ہے؟ ہم نے کہا ہمارا مطلب یہ نہیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی حدیث ہمیں سنائیے، آپ نے فرمایا: ہم ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ایک ساتھی کے بارے میں حاضر ہوئے جس نے قتل کی وجہ سے اپنے اوپر جہنم واجب کرلی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی طرف سے غلام آزاد کرو، اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک عضو کے بدلے اس کا ایک ایک عضو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا ۔ [سنن ابوداود:3964،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏، یہ حدیث نسائی شریف میں بھی ہے۔

اور حدیث میں ہے جو شخص کسی کی گردن آزاد کرائے اللہ تعالیٰ اسے اس کا فدیہ بنا دیتا ہے ۔ [مسند احمد:150/4:صحیح لغیره وهذا اسناد ضعیف لا نقطاعہ] ‏‏‏‏ ایسی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں۔
10625

مسند احمد میں ہے کہ ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول! کوئی ایسا کام بتا دیجئیے جس سے میں جنت میں جا سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھوڑے سے الفاظ میں بہت ساری باتیں تو پوچھ بیٹھا، «نسمہ» آزاد کر، «رقبتہ» چھڑا، اس نے کہا کیا یہ دونوں ایک چیز نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں «نسمہ» کی آزادی کے معنی تو ہیں اکیلا ایک غلام آزاد کرے اور «فَكُّ رَقَبَةٍ» کے معنی ہیں کہ تھوڑی بہت مدد کرے، دودھ والا جانور دودھ پینے کے لیے کسی مسکین کو دینا، ظالم رشتہ دار سے نیک سلوک کرنا، یہ جنت کے کام ہیں، اگر اس کی تجھے طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھلا، پیاسے کو پلا، نیکیوں کا حکم کر، برائیوں سے روک، اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو سوائے بھلائی کے اور نیک بات کے اور کوئی کلمہ زبان سے نہ نکال ۔ [مسند احمد:299/4:صحیح] ‏‏‏‏

«ذِي مَسْغَبَةٍ» کے معنی ہیں بھوک والا، جبکہ کھانے کی اشتہا ہو، غرض بھوک کے وقت کا کھلانا اور وہ بھی اسے جو نادان بچہ ہے سر سے باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے اور اس کا رشتہ دار بھی ہے۔
10626

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسکین کو صدقہ دینا اکہرا ثواب رکھتا ہے، اور رشتے ادر کو دینا دوہرا اجر دلواتا ہے [سنن ترمذي:658،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

یا ایسے مسکین کو دینا جو خاک آلود ہو، راستے میں پڑا ہوا ہو، گھر ور نہ ہو، بر بستر نہ ہو، بھوک کی وجہ سے پیٹھ زمین دوز ہو رہی ہو، اپنے گھر سے دور ہو، مسافرت میں ہو، فقیر، مسکین، محتاج، مقروض، مفلس ہو، کوئی پرسان حال بھی نہ ہو، اہل و عیال والا ہو، یہ سب معنی قریب قریب ایک ہی ہیں۔ پھر یہ شخص باوجود ان نیک کاموں کے دل میں ایمان رکھتا ہو ان نیکیوں پر اللہ سے اجر کا طالب ہو جیسے اور جگہ ہے «وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَـٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا» [17-الإسراء:19] ‏‏‏‏ ” جو شخص آخرت کا ارادہ رکھے اور اس کے لیے کوشش کرے اور ہو بھی با ایمان تو ان کی کوشش اللہ کے ہاں مشکور ہے “۔

اور جگہ ہے «مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً» [16-النحل:97] ‏‏‏‏ الخ، ” ایمان والوں میں سے جو مرد عورت مطابق سنت عمل کرے یہ جنت میں جائیں گے اور وہاں بے حساب روزیاں پائیں گے “۔

پھر ان کا وصف بیان ہو رہا ہے کہ ” لوگوں کے صدمات سہنے اور ان پر رحم و کرم کرنے کی یہ آپس میں ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں “۔

جیسے کہ حدیث میں ہے «الرَّاحِمُونَ يَرْحَمهُمْ الرَّحْمَن اِرْحَمُوا مَنْ فِي الْأَرْض يَرْحَمكُمْ مَنْ فِي السَّمَاء» رحم کرنے والوں پر رحمان بھی رحم کرتا ہے، تم زمین والوں پر رحم کرو آسمانوں والا تم پر رحم کرے گا ۔ [سنن ابوداود:4941،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے «لَا يَرْحَم اللَّه مَنْ لَا يَرْحَم النَّاس» جو رحم نہ کرے اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔ [صحیح بخاری:7376] ‏‏‏‏

ابوداؤد میں ہے «مَنْ لَمْ يَرْحَم صَغِيرنَا وَيَعْرِف حَقّ كَبِيرنَا فَلَيْسَ مِنَّا» جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کے حق کو نہ سمجھے وہ ہم میں سے نہیں ۔ [صحیح بخاری:3350] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ ” یہ لوگ وہ ہیں جن کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا اور ہماری آیتوں کے جھٹلانے والوں کے بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملے گا، اور سر بند تہہ بہ تہہ آگ میں جائیں گے، جس سے نہ کبھی چھٹکارا ملے گا نہ نجات نہ راحت نہ آرام، اس آگ کے دروازے ان پر بند رہیں گے “۔
10627

مزید بیان اس کا سورۃ «وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ» [104-الهمزة:1] ‏‏‏‏، میں آئے گا ان شاءاللہ۔

قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ نہ اس میں روشنی ہو گی، نہ سوراخ ہو گا، نہ کبھی وہاں سے نکلنا ملے گا۔‏‏‏‏

ابوعمران جوئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب قیامت کا دن آئے گا، اللہ حکم دے گا اور ہر سرکش کو، ہر ایک شیطان کو اور ہر اس شخص کو جس کی شرارت سے لوگ دنیا میں ڈرتے رہتے تھے، لوہے کی زنجیروں سے مضبوط باندھ دیا جائے گا، پھر جہنم میں جھونک دیا جائے گا پھر جہنم بند کر دی جائے گی۔ اللہ کی قسم کبھی ان کے قدم ٹکیں گے ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی آسمان کی صورت ہی دکھائی نہ دے گی اللہ کی قسم کبھی آرام سے ان کی آنکھ لگے گی ہی نہیں اللہ کی قسم انہیں کبھی کوئی مزے کی چیز کھانے پینے کو ملے گی ہی نہیں۔‏‏‏‏ [ ابن ابی حاتم ] ‏‏‏‏

سورۃ البلد کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه» «وَلِلَّهِ الْحَمْد وَالْمِنَّة»
10628



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.