تفسير ابن كثير



سورۃ الفجر

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ[15] وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ[16] كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ[17] وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ[18] وَتَأْكُلُونَ التُّرَاثَ أَكْلًا لَمًّا[19] وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا[20]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس لیکن انسان جب اس کا رب اسے آزمائے، پھر اسے عزت بخشے اور اسے نعمت دے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزت بخشی۔ [15] اور لیکن جب وہ اسے آزمائے، پھر اس پر اس کا رزق تنگ کردے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا۔ [16] ہرگز ایسا نہیں، بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے۔ [17] اور نہ تم آپس میں مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو۔ [18] اور تم میراث کھا جاتے ہو، سب سمیٹ کر کھا جانا۔ [19] اور مال سے محبت کرتے ہو، بہت زیادہ محبت کرنا ۔ [20]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] انسان (کا یہ حال ہے کہ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت ونعمت دیتا ہے تو وه کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا [15] اور جب وه اس کو آزماتا ہے اس کی روزی تنگ کر دیتا ہے تو وه کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی (اور ذلیل کیا) [16] ایسا ہرگز نہیں بلکہ (بات یہ ہے) کہ تم (ہی) لوگ یتیموں کی عزت نہیں کرتے [17] اور مسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے [18] اور (مردوں کی) میراث سمیٹ سمیٹ کر کھاتے ہو [19] اور مال کو جی بھر کر عزیز رکھتے ہو [20]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] مگر انسان (عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے تو اسے عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے۔ تو کہتا ہے کہ (آہا) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی [15] اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا [16] نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے [17] اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو [18] اور میراث کے مال سمیٹ کر کھا جاتے ہو [19] اور مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو [20]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 15، 16، 17، 18، 19، 20،

وسعت رزق کو اکرام نہ سمجھو بلکہ امتحان سمجھو ٭٭

مطلب یہ ہے کہ جو لوگ وسعت اور کشادگی پا کر یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ اللہ نے ان کا اکرام کیا یہ غلط ہے بلکہ دراصل یہ امتحان ہے جیسے اور جگہ ہے «أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ» * «نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ» [23-المؤمنون:55-56] ‏‏‏‏ الخ یعنی ” مال و اولاد کے بڑھ جانے کو یہ لوگ نیکیوں کی زیادتی سمجھتے ہیں دراصل یہ ان کی بےسمجھی ہے “۔

اسی طرح اس کے برعکس بھی یعنی تنگ ترشی کو انسان اپنی اہانت سمجھ بیٹھتا ہے حالانکہ دراصل یہ بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے اسی لیے یہاں «كَلَّا» کہہ کر ان دونوں خیالات کی تردید کی کہ یہ واقعہ نہیں جسے اللہ مال کی وسعت دے اس سے وہ خوش ہے اور جس میں تنگی کرے اس سے ناخوش ہے بلکہ خوشی اور ناخوشی کا مدار ان دونوں حالتوں میں عمل پر ہے غنی ہو کر شکر گزاری کرے تو اللہ کا محبوب اور فقیر ہو کر صبر کرے تو اللہ کا محبوب اللہ تعالیٰ اس طرح اور اس طرح آزماتا ہے۔

پھر یتیم کی عزت کرنے کا حکم دیا، حدیث میں ہے کہ سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کی اچھی پرورش ہو رہی ہو اور بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو پھر آپ نے انگلی اٹھا کر فرمایا: میں اور یتیم کو پالنے والا جنت میں ایسے ہوں گے یعنی قریب قریب ۔ [سنن ابن ماجہ:3679:ضعیف] ‏‏‏‏
10591

ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ کلمہ کی اور بیچ کی انگلی ملا کر انہیں دکھایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور یتیم کا پالنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے [صحیح بخاری:6005] ‏‏‏‏

پھر فرمایا کہ یہ لوگ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ احسان کرنے، انہیں کھانا پینا دینے کی، ایک دوسرے کو رغبت و لالچ نہیں دلاتے اور یہ عیب بھی ان میں ہے کہ میراث کا مال حلال ہو یا حرام ہضم کر جاتے ہیں اور مال کی محبت بھی ان میں بے حد ہے۔
10592



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.