یہ حدیث گزر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سبح اسم» اور «غاشیہ» کو نماز عیدین اور جمعہ میں پڑھتے تھے، موطا امام مالک میں ہے کہ جمعہ کے دن پہلی رکعت میں سورۃ جمعہ اور دوسری میں «هل اتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے [ابوداؤد] صحیح مسلم، ابن ماجہ اور نسائی میں بھی یہ حدیث ہے۔ [صحیح مسلم:878]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ﴿﴾
شروع کرتا ہوں اللہ تعالٰی کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تیرے پاس ڈھانپ لینے والی کی خبر پہنچی؟ [1] اس دن کئی چہرے ذلیل ہوں گے۔ [2] محنت کرنے والے، تھک جانے والے ۔ [3] گرم آگ میں داخل ہوں گے ۔ [4] وہ ایک کھولتے ہوئے چشمے سے پلائے جائیں گے۔ [5] ان کے لیے کوئی کھانا نہیں ہوگا مگر ضریع سے۔ [6] جو نہ موٹا کرے گا اور نہ بھوک سے کچھ فائدہ دے گا۔ [7] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا تجھے بھی چھپا لینے والی (قیامت) کی خبر پہنچی ہے [1] اس دن بہت سے چہرے ذلیل ہوں گے [2] (اور) محنت کرنے والے تھکے ہوئے ہوں گے [3] وه دہکتی ہوئی آگ میں جائیں گے [4] اور نہایت گرم چشمے کا پانی ان کو پلایا جائے گا [5] ان کے لئے سوائے کانٹے دار درختوں کے اور کچھ کھانے کو نہ ہوگا [6] جو نہ موٹا کرے گا نہ بھوک مٹائے گا [7]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا تم کو ڈھانپ لینے والی (یعنی قیامت کا) حال معلوم ہوا ہے [1] اس روز بہت سے منہ (والے) ذلیل ہوں گے [2] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے [3] دہکتی آگ میں داخل ہوں گے [4] ایک کھولتے ہوئے چشمے کا ان کو پانی پلایا جائے گا [5] اور خار دار جھاڑ کے سوا ان کے لیے کوئی کھانا نہیں (ہو گا) [6] جو نہ فربہی لائے اور نہ بھوک میں کچھ کام آئے [7]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7،
سب کو ڈھانپنے والی حقیقت ٭٭
«غَاشِيَةُ» قیامت کا نام ہے اس لئے کہ وہ سب پر آئیگی سب کو گھیرے ہوئے ہو گی اور ہر ایک کو ڈھانپ لے گی۔
ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ ایک عورت کی قرآن پڑھنے کی آواز آئی آپ کھڑے ہو کر سننے لگے اس نے یہی آیت «هَلْ أَتَاكَ» پڑھی یعنی ” کیا تیرے پاس ڈھانپ لینے والی قیامت کی بات پہنچی ہے؟ “ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا: ” «نَعَمْ، قَدْ جَاءَنِي» یعنی ہاں میرے پاس پہنچ چکی ہے۔“
اس دن بہت سے لوگ ذلیل چہروں والے ہوں گے پستی ان پر برس رہی ہو گی ان کے اعمال غارت ہو گئے ہوں گے انہوں نے تو بڑے بڑے عمل کئے تھے، سخت تکلیفیں اٹھائی تھیں وہ آج بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گئے۔
ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک خانقاہ کے پاس سے گزرے وہاں کے راہب کو آواز دی وہ حاضر ہوا آپ اسے دیکھ کر روئے لوگوں نے پوچھا: حضرت کیا بات ہے؟ تو فرمایا: ”اسے دیکھ کر یہ آیت یاد آ گئی کہ عبادت اور ریاضت کرتے ہیں لیکن آخر جہنم میں جائیں گے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ”اس سے مراد نصرانی ہیں۔“ عکرمہ اور سدی رحمہ اللہ علیہم فرماتے ہیں کہ ”دنیا میں گناہوں کے کام کرتے رہے اور آخرت میں عذاب کی اور مار کی تکلیفیں برداشت کریں گے یہ سخت بھڑکنے والی جلتی تپتی آگ میں جائیں گے جہاں سوائے «ضَرِيعٍ» کے اور کچھ کھانے کو نہ ملے گا جو آگ کا درخت ہے یا جہنم کا پتھر ہے یہ تھوہر کی بیل ہے اس میں زہریلے کانٹے دار پھل لگتے ہیں یہ بدترین کھانا ہے اور نہایت ہی برا نہ بدن بڑھائے نہ بھوک مٹائے یعنی نہ نفع پہنچے نہ نقصان دور ہو۔“