[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پس نہیں، میں شفق کی قسم کھاتا ہوں! [16] اور رات کی اور اس چیز کی جسے وہ جمع کرتی ہے! [17] اور چاند کی، جب وہ پورا ہوتا ہے ! [18] کہ تم ضرور ہی ایک حالت سے دوسری حالت کو چڑھتے جاؤ گے ۔ [19] تو انھیں کیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے ۔ [20] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] مجھے شفق کی قسم! اور رات کی! [16] اور اس کی جمع کرده چیزوں کی قسم [17] اور چاند کی جب کہ وه کامل ہو جاتا ہے [18] یقیناً تم ایک حالت سے دوسری حالت پر پہنچو گے [19] انہیں کیا ہو گیا کہ ایمان نہیں ﻻتے [20]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہمیں شام کی سرخی کی قسم [16] اور رات کی اور جن چیزوں کو وہ اکٹھا کر لیتی ہے ان کی [17] اور چاند کی جب کامل ہو جائے [18] کہ تم درجہ بدرجہ (رتبہٴ اعلیٰ پر) چڑھو گے [19] تو ان لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ ایمان نہیں لاتے [20]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 16، 17، 18، 19، 20،
پیشین گوئی ٭٭
«شفق» سے مراد وہ سرخی ہے جو غروب آفتاب کے بعد آسمان کے مغربی کناروں پر ظاہر ہوتی ہے سیدنا علی، ابن عباس، عبادہ بن صامت، ابوہریرہ، شداد بن اوس، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم، محمد بن علی بن حسین، مکحول، بکر بن عبداللہ مزنی، بکیر بن الشیخ، مالک بن ابی ذئب، عبدالعزیز بن ابوسلمہ، ماجشون رحمہ اللہ علیہم یہی فرماتے ہیں کہ «شفق» اس سرخی کو کہتے ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد سفیدی ہے، پس «شفق» کناروں کی سرخی کو کہتے ہیں وہ طلوع سے پہلے ہو یا غروب کے بعد اور اہل سنت کے نزدیک مشہور یہی ہے۔
خلیل رحمہ اللہ کہتے ہیں عشاء کے وقت تک یہ «شفق» باقی رہتی ہے، جوہری رحمہ اللہ کہتے ہیں سورج کے غروب ہونے کے بعد جو سرخی اور روشنی باقی رہتی ہے اسے «شفق» کہتے ہیں۔ یہ اول رات سے عشاء کے وقت تک رہتی ہے۔ عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مغرب سے لے کر عشاء تک، صحیح مسلم کی حدیث میں ہے مغرب کا وقت شفق غائب ہونے تک ہے۔ [صحیح مسلم:612]
مجاہد رحمہ اللہ سے البتہ یہ مروی ہے کہ اس سے مراد سارا دن ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مراد سورج ہے، غالباً اس مطلب کی وجہ اس کے بعد کا جملہ ہے تو گویا روشنی اور اندھیرے کی قسم کھائی۔
10448
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں دن کے جانے اور رات کے آنے کی قسم ہے۔ اوروں نے کہا ہے سفیدی اور سرخی کا نام «شَّفَقِ» ہے اور قول ہے کہ یہ لفظ ان دونوں مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے۔
«وَسَقَ» کے معنی ہیں جمع کیا یعنی رات کے ستاروں اور رات کے جانوروں کی قسم، اسی طرح رات کے اندھیرے میں تمام چیزوں کا اپنی اپنی جگہ چلے جانا، اور چاند کی قسم جبکہ وہ پورا ہو جائے اور پوری روشنی والا بن جائے، «لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ»[84-الإنشقاق:17] کی تفسیر بخاری میں مرفوع حدیث سے مروی ہے کہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف چڑھتے چلے جاؤ گے۔ [صحیح بخاری:4940] سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو سال آئے گا وہ اپنے پہلے سے زیادہ برا ہو گا۔ میں نے اسی طرح تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ [صحیح بخاری:7068] اس حدیث سے اور اوپر والی حدیث کے الفاظ بالکل یکساں ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
اور یہ مطلب بھی اسی حدیث کا بیان کیا گیا ہے کہ اس سے مراد ذات نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس کی تائید سیدنا عمر، ابن مسعود، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور عام اہل مکہ اور اہل کوفہ کی قرأت سے بھی ہوتی ہے۔ ان کی قرأت ہے «لَتَرْكَبَنَّ» ۔
شعبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اے نبی! تم ایک آسمان کے بعد دوسرے آسمان پر چڑھو گے، مراد اس سے معراج ہے، یعنی منزل بمنزل چڑھتے چلے جاؤ گے۔
10449
سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ اپنے اپنے اعمال کے مطابق منزلیں طے کرو گے۔ جیسے حدیث میں ہے کہ تم اپنے سے اگلے لوگوں کے طریقوں پر چڑھو گے بالکل برابر برابر یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوا ہو تو تم بھی یہی کرو گے۔ لوگوں نے کہا اگلوں سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا یہود و نصرانی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اور کون؟“[صحیح بخاری:7320]
مکحول رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”ہر بیس سال کے بعد تم کسی نہ کسی ایسے کام کی ایجاد کرو گے جو اس سے پہلے نہ تھا۔“ عبداللہ فرماتے ہیں ”آسمان پھٹے گا پھر سرخ رنگ ہو جائے گا۔ پھر بھی رنگ بدلتے چلے جائیں گے۔“
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کبھی تو آسمان دھواں بن جائے گا پھر پھٹ جائے گا۔ سعید بن جیبر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یعنی بہت سے لوگ جو دنیا میں پست و ذلیل تھے آخرت میں بلند و ذی عزت بن جائیں گے، اور بہت سے لوگ دنیا میں مرتبے اور عزت والے تھے وہ آخرت میں ذلیل و نامراد ہو جائیں گے۔
عکرمہ رضی اللہ عنہ یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ پہلے دودھ پیتے تھے پھر غذا کھانے لگے، پہلے جوان تھے پھر بڈھے ہوئے۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں نرمی کے بعد سختی، سختی کے بعد نرمی، امیری کے بعد فقیری، فقیری کے بعد امیری، صحت کے بعد بیماری، بیماری کے بعد تندرستی۔
ایک مرفوع حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”ابن آدم غفلت میں ہے وہ پرواہ نہیں کرتا کہ کس لیے پیدا کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ جب کسی کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو فرشتے سے کہتا ہے اس کی روزی اس کی اجل، اس کی زندگی، اس کا بد یا نیک ہونا لکھ لے پھر وہ فارغ ہو کر چلا جاتا ہے، اور دوسرا فرشتہ آتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ اسے سمجھ آ جائے پھر وہ فرشتہ اٹھ جاتا ہے پھر دو فرشتے اس کا نامہ اعمال لکھنے والے آ جاتے ہیں۔ موت کے وقت وہ بھی چلے جاتے ہیں اور ملک الموت آ جاتے ہیں اس کی روح قبض کرتے ہیں پھر قبر میں اس کی روح لوٹا دی جاتی ہے، ملک الموت چلے جاتے ہیں قیامت کے دن نیکی بدی کے فرشتے آ جائیں گے اور اس کی گردن سے اس کا نامہ اعمال کھول لیں گے، پھر اس کے ساتھ ہی رہیں گے، ایک سائق ہے دوسرا شہید ہے۔“
10450
پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا «لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَةٍ مِّنْ ھٰذَا»[50-ق:22] ” تو اس سے غافل تھا “، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَن طَبَقٍ»[84-الإنشقاق:19] پڑھی یعنی ” ایک حال سے دوسرا حال “، پھر فرمایا: ”لوگو تمہارے آگے بڑے بڑے ہم امور آ رہے ہیں جن کی برداشت تمہارے بس کی بات نہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ بلند و برتر سے مدد چاہو ۔ یہ حدیث ابن ابی حاتم میں ہے، منکر حدیث ہے اور اس کی سند میں ضعیف راوی ہیں لیکن اس کا مطلب بالکل صحیح اور درست ہے۔ «وَاللهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالىٰ اَعْلَمُ»
امام ابن جریر نے ان تمام اقوال کو بیان کر کے فرمایا ہے کہ صحیح مطلب یہ ہے کہ ” آپ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سخت سخت کاموں میں ایک کے بعد ایک سے گزرنے والے ہیں “ اور گو خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ہے لیکن مراد سب لوگ ہیں کہ وہ قیامت کی ایک کے بعد ایک ہولناکی دیکھیں گے۔