[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] بے شک وہ لوگ جنھوں نے جرم کیے،ان لوگوں پر جو ایمان لائے، ہنسا کرتے تھے۔ [29] اور جب وہ ان کے پاس سے گزرتے تو ایک دوسرے کو آنکھوں سے اشارے کیا کرتے تھے۔ [30] اور جب اپنے گھر والوں کے پاس واپس آتے تو خوش گپیاں کرتے ہوئے واپس آتے تھے ۔ [31] اور جب انھیں دیکھتے تو کہا کرتے تھے بلاشبہ یہ لوگ یقینا گمراہ ہیں ۔ [32] حالانکہ وہ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے۔ [33] سو آج وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہیں۔ [34] تختوں پر (بیٹھے) نظارہ کر رہے ہیں۔ [35] کیا کافروں کو اس کا بدلہ دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے؟ [36] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] گنہگار لوگ ایمان والوں کی ہنسی اڑایا کرتے تھے [29] اور ان کے پاس سے گزرتے ہوئے آپس میں آنکھ کےاشارے کرتے تھے [30] اور جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے تو دل لگیاں کرتے تھے [31] اور جب انہیں دیکھتے تو کہتے یقیناً یہ لوگ گمراه (بے راه) ہیں [32] یہ ان پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجے گئے [33] پس آج ایمان والے ان کافروں پر ہنسیں گے [34] تختوں پر بیٹھے دیکھ رہے ہوں گے [35] کہ اب ان منکروں نے جیسا یہ کرتے تھے پورا پورا بدلہ پالیا [36]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جو گنہگار (یعنی کفار) ہیں وہ (دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے [29] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو حقارت سے اشارے کرتے [30] اور جب اپنے گھر کو لوٹتے تو اتراتے ہوئے لوٹتے [31] اور جب ان (مومنوں) کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ تو گمراہ ہیں [32] حالانکہ وہ ان پر نگراں بنا کر نہیں بھیجے گئے تھے [33] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے [34] (اور) تختوں پر (بیٹھے ہوئے ان کا حال) دیکھ رہے ہوں گے [35] تو کافروں کو ان کے عملوں کا (پورا پورا) بدلہ مل گیا [36]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 29، 30، 31، 32، 33، 34، 35، 36،
گنہگار لوگ روز قیامت رسوا ہوں گے ٭٭
یعنی دنیا میں تو ان کافروں کی خوب بن آئی تھی ایمان داروں کو مذاق میں اڑاتے رہے، چلتے پھرتے آواز کستے رہے اور حقارت و تذلیل کرتے رہے اور اپنے والوں میں جا کر خوب باتیں بناتے تھے جو چاہتے تھے پاتے تھے لیکن شکر تو کہاں اور کفر پر آمادہ ہو کر مسلمانوں کی ایذا رسانی کے درپے ہو جاتے تھے اور چونکہ مسلمان ان کی مانتے نہ تھے تو یہ انہیں گمراہ کہا کرتے تھے۔
اللہ فرماتا ہے ” کچھ یہ لوگ محافظ بنا کر تو نہیں بھیجے گئے انہیں مومنوں کی کیا پڑی کیوں ہر وقت ان کے پیچھے پڑے ہیں اور ان کے اعمال افعال کی دیکھ بھال رکھتے ہیں اور طعنہ آمیز باتیں بناتے رہتے ہیں؟ “
جیسے اور جگہ ہے «قَالَ اخْسَئُوا فِيهَا وَلَا تُكَلِّمُونِ إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا حَتَّىٰ أَنسَوْكُمْ ذِكْرِي وَكُنتُم مِّنْهُمْ تَضْحَكُونَ إِنِّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ»[23-المؤمنون:108-111] یعنی ” اس جہنم میں پڑے جھلستے رہو مجھ سے بات نہ کرو میرے بعض خاص بندے کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم کر تو سب سے بڑا رحم و کرم کرنے والا ہے تو تم نے انہیں مذاق میں اڑایا اور اس قدر غافل ہوئے کہ میری یاد بھلا بیٹھے اور ان سے ہنسی مذاق کرنے لگے دیکھو آج میں نے انہیں ان کے صبر کا یہ بدلا دیا ہے کہ وہ ہر طرح کامیاب ہیں۔ “
یہاں بھی اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ ” آج قیامت کے دن ایماندار ان بدکاروں پر ہنس رہے ہیں اور تختوں پر بیٹھے اپنے اللہ کو دیکھ رہے ہیں جو اس کا صاف ثبوت ہے کہ یہ گمراہ نہ تھے گو تم انہیں گم کردہ راہ کہا کرتے تھے بلکہ یہ دراصل اولیاء اللہ تھے مقربین اللہ تھے اسی لیے آج اللہ کا دیدار ان کی نگاہوں کے سامنے ہے یہ اللہ کے مہمان ہیں اور اس کے بزرگی والے گھر میں ٹھہرے ہوئے ہیں جیسا کچھ ان کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں کیا تھا اس کا پورا بدلہ انہیں آخرت میں مل گیا یا نہیں؟ ان کے مذاق کے بدلے آج ان کی ہنسی اڑائی گئی یہ ان کا مرتبہ گھٹاتے تھے اللہ نے ان کا مرتبہ بڑھایا۔ غرض پورا پورا تمام و کمال بدلہ دے دیا۔ “
«الْحَمْدُ لِلَّـه» سورۃ المطففین کی تفسیر ختم ہوئی۔