تفسير ابن كثير



سورۃ التكوير

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
مُطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ[21] وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُونٍ[22] وَلَقَدْ رَآهُ بِالْأُفُقِ الْمُبِينِ[23] وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ[24] وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ[25] فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ[26] إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ[27] لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ[28] وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ[29]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے، امانت دار ہے۔ [21] اور تمھارا ساتھی ہرگز کوئی دیوانہ نہیں ہے۔ [22] اور بلاشبہ یقینا اس نے اس ( جبریل) کو ( آسمان کے) روشن کنارے پر دیکھا ہے۔ [23] اور وہ غیب کی باتوں پر ہرگز بخل کرنے والا نہیں۔ [24] اور وہ ہرگز کسی مردود شیطان کا کلام نہیں۔ [25] پھر تم کہاں جا رہے ہو؟ [26] یہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔ [27] اس کے لیے جو تم میں سے چاہے کہ سیدھا چلے۔ [28] اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے ، جو سب جہانوں کا رب ہے۔ [29]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] جس کی (آسمانوں میں) اطاعت کی جاتی ہے امین ہے [21] اور تمہارا ساتھی دیوانہ نہیں ہے [22] اس نے اس (فرشتے) کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے [23] اور یہ غیب کی باتوں کو بتلانے میں بخیل بھی نہیں [24] اور یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں [25] پھر تم کہاں جا رہے ہو [26] یہ تو تمام جہان والوں کے لئے نصیحت نامہ ہے [27] (بالخصوص) اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی راه پر چلنا چاہے [28] اور تم بغیر پروردگار عالم کے چاہے کچھ نہیں چاه سکتے [29]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] سردار (اور) امانت دار ہے [21] اور (مکے والو) تمہارے رفیق (یعنی محمدﷺ) دیوانے نہیں ہیں [22] بےشک انہوں نے اس (فرشتے) کو (آسمان کے کھلے یعنی) مشرقی کنارے پر دیکھا ہے [23] اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں [24] اور یہ شیطان مردود کا کلام نہیں [25] پھر تم کدھر جا رہے ہو [26] یہ تو جہان کے لوگوں کے لیے نصیحت ہے [27] (یعنی) اس کے لیے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے [28] اور تم کچھ بھی نہیں چاہ سکتے مگر وہی جو خدائے رب العالمین چاہے [29]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 21، 22، 23، 24، 25، 26، 27، 28، 29،

باب

مطلب یہ ہے کہ فرشتوں میں سے جو اس رسالت پر مقرر ہیں وہ بھی پاک صاف ہیں اور انسانوں میں جو رسول مقرر ہیں وہ بھی پاک اور برتر ہیں۔

اس لیے اس کے بعد فرمایا، ” تمہارے ساتھی یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیوانے نہیں، یہ پیغمبر اس فرشتے کو اس کی اصلی صورت میں بھی دیکھ چکے ہیں جبکہ وہ اپنے چھ سو پروں سمیت ظاہر ہوئے تھے “۔ یہ واقعہ بطحاء کا ہے اور یہ پہلی مرتبہ دیکھنا تھا آسمان کے کھلے کناروں پر یہ دیدار جبرائیل علیہ السلام حاصل ہوا تھا، اسی کا بیان اس آیت میں ہے «عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىٰ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىٰ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىٰ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىٰ فَأَوْحَىٰ إِلَىٰ عَبْدِهِ مَا أَوْحَىٰ» [53-النجم:10-5] ‏‏‏‏ یعنی ” انہیں ایک فرشتہ تعلیم کرتا ہے جو بڑا طاقتور ہے قوی ہے، جو اصلی صورت پر آسمان کے بلند و بالا کناروں پر ظاہر ہوا تھا پھر وہ نزدیک آیا اور بہت قریب آ گیا صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم پھر جو وحی اللہ نے اپنے بندے پر نازل کرنی چاہی نازل فرمائی “۔ اس آیت کی تفسیر سورۃ النجم میں گزر چکی ہے۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت معراج سے پہلے اتری ہے اس لیے کہ اس میں صرف پہلی مرتبہ کا دیکھنا ذکر ہوا ہے اور دوبارہ کا دیکھنا اس آیت میں مذکور ہے «وَلَقَدْ رَآهُ نَزْلَةً أُخْرَىٰ عِندَ سِدْرَةِ الْمُنتَهَىٰ عِندَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَىٰ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىٰ» [53-النجم:16-13] ‏‏‏‏ یعنی ” انہوں نے اس کو ایک مرتبہ اور بھی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا ہے جس کے قریب جنت الماویٰ ہے۔ جبکہ اس درخت سدرہ کو ایک عجیب و غریب چیز چھپائے ہوئی تھی “۔ اس آیت میں دوسری مرتبہ کے دیکھنے کا ذکر ہے۔ یہ سورت واقعہ معراج کے بعد نازل ہوئی تھی۔

«‏‏‏‏بِضَنِينٍ» کی دوسری قرأت «بِـظَنِـیْنٍ» بھی مروی ہے۔ یعنی ان پر کوئی تہمت نہیں، اور «ضاد» سے جب پڑھو تو معنی ہوں گے یہ بخیل نہیں ہیں، بلکہ ہر شخص کو جو غیب کی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے معلوم کرائی جاتی ہیں یہ سکھا دیا کرتے ہیں یہ دونوں قراءتیں مشہور ہیں، اور صحیح ہیں۔
10357

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو تبلیغ احکام میں کمی کی، نہ تہمت لگی، یہ قرآن شیطان مردود کا کلام نہیں، نہ شیطان اسے لے سکے، نہ اس کے مطلب کی یہ چیز، نہ اس کے قابل۔

جیسے اور جگہ ہے «وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ وَمَا يَنبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ» [26-الشعراء:210-212] ‏‏‏‏ ” نہ اسے لے کر شیطان اترے نہ انہیں یہ لائق ہے نہ اس کی انہیں طاقت ہے وہ تو اس کے سننے سے بھی محروم اور دور ہے “۔

پھر فرمایا ” تم کہاں جا رہے ہو؟ “ یعنی قرآن کی حقانیت اس کی صداقت ظاہر ہو چکنے کے بعد بھی تم کیوں اسے جھٹلا رہے ہو؟ تمہاری عقلیں کہاں جاتی رہیں؟

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس جب بنو حنفیہ قبیلے کے لوگ مسلمان ہو کر حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا مسلمیہ جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر رکھا ہے جسے تم آج تک مانتے رہے اس نے جو کلام گھڑ رکھا ہے ذرا اسے تو سناؤ۔‏‏‏‏ جب انہوں نے سنایا تو دیکھا کہ نہایت رکیک الفاظ ہیں بلکہ بکواس محض ہے تو، آپ نے فرمایا تمہاری عقلیں کہاں جاتی رہیں؟ ذرا تو سوچو کہ ایک فضول بکواس کو تم کلام اللہ جانتے رہے ناممکن ہے کہ ایسا بے معنی اور بے نور کلام اللہ کا کلام ہو۔‏‏‏‏

یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ تم کتاب اللہ سے اور اطاعت اللہ سے کہاں بھاگ رہے ہو؟ پھر فرمایا ” یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے پند و نصیحت ہے “۔
10358

ہر ایک ہدایت کے طالب کو چاہیئے کہ اس قرآن کا عامل بن جائے یہی نجات اور ہدایت کا کفیل ہے، اس کے سوا دوسرے کلام میں ہدایت نہیں، تمہاری چاہتیں کام نہیں آتیں کہ جو چاہے گمراہ ہو جائے بلکہ یہ سب کچھ منجانب اللہ ہے وہ رب العالمین جو چاہے کرتا ہے اسی کی چاہت چلتی ہے، اس سے اگلی آیت کو سن کر ابوجہل نے کہا تھا کہ پھر تو ہدایت و ضلالت ہمارے بس کی بات ہے اس کے جواب میں یہ آیت اتری۔

سورۃ التکویر کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالحمداللہ»
10359



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.