[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اس دن ان میں سے ہر شخص کی ایک ایسی حالت ہوگی جو اسے ( دوسروں سے) بے پروا بنا دے گی۔ [37] کچھ چہرے اس دن روشن ہوں گے۔ [38] ہنستے ہوئے، بہت خوش۔ [39] اور کچھ چہرے، اس دن ان پر ایک غبار ہوگا۔ [40] ان کو سیاہی ڈھانپتی ہو گی۔ [41] یہی ہیں جو کافر ہیں ، نافرمان ہیں۔ [42] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ان میں سے ہر ایک کو اس دن ایسی فکر (دامنگیر) ہوگی جو اس کے لئے کافی ہوگی [37] اس دن بہت سے چہرے روشن ہوں گے [38] (جو) ہنستے ہوئے اور ہشاش بشاش ہوں گے [39] اور بہت سے چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے [40] جن پر سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی [41] وه یہی کافر بدکردار لوگ ہوں گے [42]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہر شخص اس روز ایک فکر میں ہو گا جو اسے (مصروفیت کے لیے) بس کرے گا [37] اور کتنے منہ اس روز چمک رہے ہوں گے [38] خنداں و شاداں (یہ مومنان نیکو کار ہیں) [39] اور کتنے منہ ہوں گے جن پر گرد پڑ رہی ہو گی [40] (اور) سیاہی چڑھ رہی ہو گی [41] یہ کفار بدکردار ہیں [42]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 37، 38، 39، 40، 41، 42،
باب
صحیح حدیث میں شفاعت کا بیان فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”اولولعزم پیغمبروں سے لوگ شفاعت کی طلب کریں گے اور ان میں سے ہر ایک یہی کہے گا «نَفْسِي نَفْسِي» یہاں تک کہ عیسیٰ روح اللہ علیہ صلوات اللہ بھی یہی فرمائیں گے کہ آج میں اللہ کے سوائے اپنی جان کے اور کسی کے لیے کچھ نہ کہوں گا میں تو آج اپنی والدہ مریم علیہا السلام کیلئے بھی کچھ نہ کہوں گا جن کے بطن سے میں پیدا ہوا ہوں، الغرض دوست دوست سے، رشتہ دار رشتہ دار سے منہ چھپاتا پھرے گا۔ ہر ایک آپا دھاپی میں لگا ہو گا، کسی کو دوسرے کا ہوش نہ ہوگا“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”تم ننگے پیروں ننگے بدن اور بے ختنہ اللہ کے ہاں جمع کیے جاؤ گے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! پھر تو ایک دوسروں کی شرمگاہوں پر نظریں پڑیں گی؟ فرمایا: ”اس روز گھبراہٹ کا حیرت انگیز ہنگامہ ہر شخص کو مشغول کیے ہوئے ہو گا، بھلا کسی کو دوسرے کی طرف دیکھنے کا موقعہ اس دن کہاں؟“[نسائی فی التفسیر:667:صحیح]
بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی آیت «لِكُلِّ امرِئٍ مِنهُم يَومَئِذٍ شَأنٌ يُغنيهِ» کی تلاوت فرمائی [سنن ترمذي:3332،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح]
دوسری روایت میں ہے کہ یہ بیوی صاحبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں [تفسیر ابن جریر الطبری:36392:ضعیف]
اور روایت میں ہے کہ ایک دن سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں ایک بات پوچھتی ہوں ذرا بتا دیجئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں جانتا ہوں تو ضرور بتاؤں گا۔“ پوچھا: اے اللہ کے رسول! لوگوں کا حشر کس طرح ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ننگے پیروں اور ننگے بدن“، تھوڑی دیر کے بعد پوچھا: کیا عورتیں بھی اسی حالت میں ہوں گی؟ فرمایا: ”ہاں“، یہ سن کر ام المؤمنین رضی اللہ عنہا افسوس کرنے لگیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! اس آیت کو سن لو پھر تمہیں اس کا کوئی رنج و غم نہ رہے گا کہ کپڑے پہنے یا نہیں؟“ پوچھا: اے اللہ کے رسول! وہ آیت کون سی ہے فرمایا: ” «لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ»“[80-عبس:37] [سنن نسائی:2083:صحیح]
ایک روایت میں ہے کہ ام المؤمنین سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یہ سن کر کہ لوگ اس طرح ننگے بدن، ننگے پاؤں، بے ختنہ جمع کیے جائیں گے پسینے میں غرق ہوں گے کسی کے منہ تک پسینہ پہنچ جائے گا اور کسی کے کانوں تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائی ۔ [مستدرک حاکم:564/2:ضعیف]
پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ” وہاں لوگوں کے دو گروہ ہوں گے بعض تو وہ ہوں گے جن کے چہرے خوشی سے چمک رہے ہوں گے، دل خوشی سے مطمئن ہوں گے، منہ خوبصورت اور نورانی ہوں گے یہ تو جنتی جماعت ہے، دوسرا گروہ جہنمیوں کا ہو گا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے، گرد آلود ہوں گے “۔
حدیث میں ہے کہ ان کا پسینہ مثل لگام کے ہو رہا ہو گا پھر گردوغبار پڑا ہوا ہو گا ۔ [ضعیف]
” جن کے دلوں میں کفر تھا اور اعمال میں بدکاری تھی “، جیسے اور جگہ ہے «وَلَا يَلِدُوْٓا اِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا»[71-نوح:27] یعنی ” ان کفار کی اولاد بھی بدکار کافر ہی ہوگی “۔