[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس نے دنیا کی زندگی کو ترجیح دی۔ [38] توبے شک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔ [39] اور رہا وہ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر گیا اور اس نے نفس کو خواہش سے روک لیا۔ [40] تو بے شک جنت ہی (اس کا) ٹھکانا ہے۔ [41] وہ تجھ سے قیامت کے متعلق پوچھتے ہیں کہ اس کا قیام کب ہے؟ [42] اس کے ذکر سے تو کس خیال میں ہے؟ [43] تیرے رب ہی کی طرف اس (کے علم) کی انتہا ہے ۔ [44] توُ تو صرف اسے ڈرانے والا ہے جو اس سے ڈرتا ہے۔ [45] گویا وہ جس دن اسے دیکھیں گے وہ (دنیا میں) نہیں ٹھہرے، مگر دن کا ایک پچھلا حصہ، یا اس کا پہلا حصہ ۔ [46] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی (ہوگی) [38] اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے [39] ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا [40] تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے [41] لوگ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کا وقت دریافت کرتے ہیں [42] آپ کو اس کے بیان کرنے سے کیا تعلق؟ [43] اس کے علم کی انتہا تو اللہ کی جانب ہے [44] آپ تو صرف اس سے ڈرتے رہنے والوں کو آگاه کرنے والے ہیں [45] جس روز یہ اسے دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا کہ صرف دن کا آخری حصہ یا اول حصہ ہی (دنیا میں) رہے ہیں [46]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھا [38] اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے [39] اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور جی کو خواہشوں سے روکتا رہا [40] اس کا ٹھکانہ بہشت ہے [41] (اے پیغمبر، لوگ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کا وقوع کب ہو گا؟ [42] سو تم اس کے ذکر سے کس فکر میں ہو [43] اس کا منتہا (یعنی واقع ہونے کا وقت) تمہارے پروردگار ہی کو (معلوم ہے) [44] جو شخص اس سے ڈر رکھتا ہے تم تو اسی کو ڈر سنانے والے ہو [45] جب وہ اس کو دیکھیں گے (تو ایسا خیال کریں گے) کہ گویا (دنیا میں صرف) ایک شام یا صبح رہے تھے [46]۔ ........................................
اس دن سرکشی کرنے والوں اور دنیا کو دین پر ترجیح دینے والوں کا ٹھکانا جہنم ہو گا، ان کی خوراک زقوم ہو گا، اور ان کا پانی حمیم ہو گا، ہاں ہمارے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے رہنے والوں اور اپنے آپ کو نفسانی خواہشوں سے بچاتے رہنے والوں، خوف اللہ دل میں رکھنے والوں اور برائیوں سے باز رہنے والوں کا ٹھکانا جنت ہے اور وہاں کی تمام نعمتوں کے حصہ دار یہی ہیں۔
10267
پھر فرمایا کہ ” قیامت کے بارے میں تم سے سوال ہو رہے ہیں تم کہہ دو کہ نہ مجھے اس کا علم ہے نہ مخلوق میں سے کسی اور کو صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ قیامت کب آئے گی “۔ اس کا صحیح وقت کسی کو معلوم نہیں وہ زمین و آسمان پر بھاری پڑ رہی ہے، حالانکہ دراصل اس کا علم سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے اور کسی کو نہیں۔
سیدنا جبرائیل علیہ السلام بھی جس وقت انسانی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کچھ سوالات کئے جن کے جوابات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیئے پھر یہی قیامت کے دن کے تعیین کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس سے پوچھتے ہو، نہ وہ اسے جانتا ہے نہ خود پوچھنے والے کو اس کا علم ہے“[صحیح بخاری:50]
پھر فرمایا کہ ” اے نبی! تم تو صرف لوگوں کے ڈرانے والے ہو، اور اس سے نفع انہیں کو پہنچے گا جو اس خوفناک دن کا ڈر رکھتے ہیں اور تیاری کر لیں گے اور اس دن کے خطرے سے بچ جائیں گے، باقی جو لوگ ہیں وہ آپ کے فرمان سے عبرت حاصل نہیں کریں گے بلکہ مخالفت کریں گے اور اس دن بدترین نقصان اور مہلک عذابوں میں گرفتار ہوں گے “۔
لوگ جب اپنی اپنی قبروں سے اٹھ کر محشر کے میدان میں جمع ہوں گے، اس وقت اپنی دنیا کی زندگی انہیں بہت ہی تھوڑی نظر آئے گی اور ایسا معلوم ہوگا کہ صرف صبح کا یا صرف شام کا حصہ دنیا میں گزارا ہے۔ ظہر سے لے کر آفتاب کے غروب ہونے کے وقت کو «عَشِيَّةً» کہتے ہیں اور سورج نکلنے سے لے کر آدھے دن تک کے وقت کو «ضُحٰہَا» کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ آخرت کو دیکھ کر دنیا کی لمبی عمر بھی اتنی کم محسوس ہونے لگی۔
سورۃ النازعات کی تفسیر ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه رَبِّ الْعَالَمِينَ»