تفسير ابن كثير



سورۃ النازعات

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ مُوسَى[15] إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى[16] اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى[17] فَقُلْ هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ تَزَكَّى[18] وَأَهْدِيَكَ إِلَى رَبِّكَ فَتَخْشَى[19] فَأَرَاهُ الْآيَةَ الْكُبْرَى[20] فَكَذَّبَ وَعَصَى[21] ثُمَّ أَدْبَرَ يَسْعَى[22] فَحَشَرَ فَنَادَى[23] فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى[24] فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَى[25] إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشَى[26]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] کیا تیرے پاس موسیٰ کی بات پہنچی ہے؟ [15] جب اس کے رب نے اسے مقدس وادی طویٰ میں پکارا۔ [16] فرعون کے پاس جا ، یقینا وہ حد سے بڑھ گیا ہے۔ [17] پس کہہ کیا تجھے اس بات کی کوئی رغبت ہے کہ تو پاک ہو جائے؟ [18] اور میں تیرے رب کی طرف تیری راہ نمائی کروں، پس تو ڈر جائے۔ [19] چنانچہ اس نے اسے بہت بڑی نشانی دکھائی۔ [20] تو اس نے جھٹلا دیا اور نافرمانی کی ۔ [21] پھر واپس پلٹا ، دوڑ بھاگ کرتا تھا ۔ [22] پھر اس نے اکٹھا کیا، پس پکارا۔ [23] پس اس نے کہا میں تمھارا سب سے اونچا رب ہوں۔ [24] تو اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا۔ [25] بے شک اس میں اس شخص کے لیے یقینا بڑی عبرت ہے جو ڈرتا ہے۔ [26]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا موسیٰ (علیہ السلام) کی خبر تمہیں پہنچی ہے؟ [15] جب کہ انہیں ان کے رب نے پاک میدان طویٰ میں پکارا [16] (کہ) تم فرعون کے پاس جاؤ اس نے سرکشی اختیار کر لی ہے [17] اس سے کہو کہ کیا تو اپنی درستگی اور اصلاح چاہتا ہے [18] اور یہ کہ میں تجھے تیرے رب کی راه دکھاؤں تاکہ تو (اس سے) ڈرنے لگے [19] پس اسے بڑی نشانی دکھائی [20] تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی [21] پھر پلٹا دوڑ دھوپ کرتے ہوئے [22] پھر سب کو جمع کرکے پکارا [23] تم سب کا رب میں ہی ہوں [24] تو (سب سے بلند وباﻻ) اللہ نے بھی اسے آخرت کے اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کرلیا [25] بیشک اس میں اس شخص کے لئے عبرت ہے جو ڈرے [26]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] بھلا تم کو موسیٰ کی حکایت پہنچی ہے [15] جب اُن کے پروردگار نے ان کو پاک میدان (یعنی) طویٰ میں پکارا [16] (اور حکم دیا) کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہو رہا ہے [17] اور (اس سے) کہو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جائے؟ [18] اور میں تجھے تیرے پروردگار کا رستہ بتاؤں تاکہ تجھ کو خوف (پیدا) ہو [19] غرض انہوں نے اس کو بڑی نشانی دکھائی [20] مگر اس نے جھٹلایا اور نہ مانا [21] پھر لوٹ گیا اور تدبیریں کرنے لگا [22] اور (لوگوں کو) اکٹھا کیا اور پکارا [23] کہنے لگا کہ تمہارا سب سے بڑا مالک میں ہوں [24] تو خدا نے اس کو دنیا اور آخرت (دونوں) کے عذاب میں پکڑ لیا [25] جو شخص (خدا سے) ڈر رکھتا ہے اس کے لیے اس (قصے) میں عبرت ہے [26]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 15، 16، 17، 18، 19، 20، 21، 22، 23، 24، 25، 26،

معفرت دل حق کا مطیع و فرماں بردار ہوتا ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ ” اس نے اپنے بندے اور رسول موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا اور معجزات سے ان کی تائید کی، لیکن باوجود اس کے فرعون اپنی سرکشی اور اپنے کفر سے باز نہ آیا بالاخر اللہ کا عذاب اترا اور برباد ہو گیا، اسی طرح اے پیغمبر آخر الزمان آپ کے مخالفین کا بھی حشر ہو گا “۔

اسی لیے اس واقعہ کے خاتمہ پر فرمایا ڈر والوں کے لیے اس میں عبرت ہے، پس فرماتا ہے کہ ” تجھے خبر بھی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام کو اس کے رب نے آواز دی جبکہ وہ ایک مقدس میدان میں تھے جس کا نام طویٰ ہے “۔ اس کا تفصیل سے بیان سورۃ طہٰ میں گزر چکا ہے، آواز دے کر فرمایا کہ ” فرعون نے سرکشی تکبر، تجبر اور تمرد اختیار کر رکھا ہے تم اس کے پاس پہنچو اور اسے میرا یہ پیغام دو کہ کیا تو چاہتا ہے کہ میری بات مان کر اس راہ پر چلے جو پاکیزگی کی راہ ہے، میری سن میری مان، سلامتی کے ساتھ پاکیزگی حاصل کر لے گا، میں تجھے اللہ کی عبادت کے وہ طریقے بتاؤں گا جس سے تیرا دل نرم اور روشن ہو جائے اس میں خشوع و خضوع پیدا ہو اور دل کی سختی اور بدبختی دور ہو “۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس پہنچے اللہ کا فرمان پہنچایا، حجت ختم کی، دلائل بیان کئے، یہاں تک کہ اپنی سچائی کے ثبوت میں معجزات بھی دکھائے لیکن وہ برابر حق کی تکذیب کرتا رہا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی باتوں کی نافرمانی پر جما رہا چونکہ دل میں کفر جاگزیں ہو چکا تھا اس سے طبیعت نہ ہٹی اور حق واضح ہو جانے کے باوجود ایمان و تسلیم نصیب نہ ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ دل سے جانتا تھا کہ یہ حق برحق نبی علیہ السلام ہیں اور ان کی تعلیم بھی برحق ہے۔
10242

لیکن دل کی معرفت اور چیز ہے اور ایمان اور چیز ہے، دل کی معرفت پر عمل کرنے کا نام ایمان ہے کہ حق کا تابع فرمان بن جائے اور اللہ رسول کی باتوں پر عمل کرنے کے لیے جھک جائے۔ پھر اس نے حق سے منہ موڑ لیا اور خلاف حق کوشش کرنے لگا جادوگروں کو جمع کر کے ان کے ہاتھوں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نیچا دکھانا چاہا۔ اپنی قوم کو جمع کیا اور اس میں منادی کی کہ تم سب میں بلند و بالا میں ہی ہوں۔

اس سے چالیس سال پہلے وہ کہہ چکا تھا کہ آیت «مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرِيْ» [28-القصص:38] ‏‏‏‏ یعنی ” میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا معبود کوئی اور بھی ہو “۔ اب تو اس کی طغیانی حد سے بڑھ گئی اور صاف کہہ دیا کہ میں ہی رب ہوں، بلندیوں والا اور سب پر غالب میں ہی ہوں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” ہم نے بھی اس سے وہ انتقام لیا جو اس جیسے تمام سرکشوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ سبب عبرت بن جائے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، بدترین عذاب تو ابھی باقی ہیں “۔

جیسے فرمایا «‏‏‏‏وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ لَا يُنْصَرُوْنَ» ‏‏‏‏ [28-القصص:41] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے انہیں جہنم کی طرف بلانے والے پیش رو بنائے قیامت کے دن یہ مدد نہ کئے جائیں گے “۔

پس صحیح تر معنی آیت کے یہی ہیں کہ آخرت اور اولیٰ سے مراد دنیا اور آخرت ہے، بعض نے کہا ہے اول آخر سے مراد اس کے دونوں قول ہیں یعنی پہلے یہ کہنا کہ میرے علم میں میرے سوا تمہارا کوئی اللہ نہیں، پھر یہ کہنا کہ تمہارا سب کا بلند رب میں ہوں، بعض کہتے ہیں مراد کفر و نافرمانی ہے، لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں، اس میں ان لوگوں کے لیے عبرت و نصیحت ہے جو نصیحت حاصل کریں اور باز آ جائیں۔
10243



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.