[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اس چیز کی طرف چلو جسے تم جھٹلاتے تھے۔ [29] ایک سائے کی طرف چلو جو تین شاخوں والا ہے۔ [30] نہ سایہ کرنے والا ہے اور نہ وہ شعلے سے کسی کام آتا ہے۔ [31] بلاشبہ وہ (آگ) محل جیسے شرارے پھینکے گی۔ [32] جیسے وہ زرد اونٹ ہوں۔ [33] اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔ [34] یہ دن ہے کہ وہ نہیں بولیں گے۔ [35] اور نہ انھیں اجازت دی جائے گی کہ وہ عذر کریں۔ [36] اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔ [37] یہ فیصلے کا دن ہے، ہم نے تمھیں اور پہلوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ [38] تو اگر تمھارے پاس کوئی خفیہ تدبیر ہے تو میرے ساتھ کر لو۔ [39] اس دن جھٹلانے والوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے۔ [40] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس دوزخ کی طرف جاؤ جسے تم جھٹلاتے رہے تھے [29] چلو تین شاخوں والے سائے کی طرف [30] جو در اصل نہ سایہ دینے واﻻ ہے اور نہ شعلے سے بچاسکتا ہے [31] یقیناً دوزخ چنگاریاں پھینکتی ہے جو مثل محل کے ہیں [32] گویا کہ وه زرد اونٹ ہیں [33] آج ان جھٹلانے والوں کی درگت ہے [34] آج (کا دن) وه دن ہے کہ یہ بول بھی نہ سکیں گے [35] نہ انہیں معذرت کی اجازت دی جائے گی [36] اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے [37] یہ ہے فیصلے کا دن ہم نے تمہیں اور اگلوں کو سب کو جمع کرلیا ہے [38] پس اگر تم مجھ سے کوئی چال چل سکتے ہو تو چل لو [39] وائے ہے اس دن جھٹلانے والوں کے لیے [40]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جس چیز کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔ (اب) اس کی طرف چلو [29] (یعنی) اس سائے کی طرف چلو جس کی تین شاخیں ہیں [30] نہ ٹھنڈی چھاؤں اور نہ لپٹ سے بچاؤ [31] اس سے (آگ کی اتنی اتنی بڑی) چنگاریاں اُڑتی ہیں جیسے محل [32] گویا زرد رنگ کے اونٹ ہیں [33] اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے [34] یہ وہ دن ہے کہ (لوگ) لب تک نہ ہلا سکیں گے [35] اور نہ ان کو اجازت دی جائے گی کہ عذر کرسکیں [36] اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے [37] یہی فیصلے کا دن ہے (جس میں) ہم نے تم کو اور پہلے لوگوں کو جمع کیا ہے [38] اگر تم کو کوئی داؤں آتا ہو تو مجھ سے کر لو [39] اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے [40]۔ ........................................
جہنم کے شعلے سیاہ اونٹوں اور دہکتے تانبے کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے ٭٭
جو کفار قیامت، جزا سزا اور جنت دوزخ کو جھٹلاتے تھے ان سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ لو جسے سچا نہ مانتے تھے وہ سزا اور وہ دوزخ یہ موجود ہے اس میں جاؤ، اس کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور اونچے ہو ہو کر ان میں تین پھانکیں کھل جاتی ہیں، تین حصے ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی دھواں بھی اوپر کو چڑھتا ہے جس سے نیچے کی طرف چھاؤں پڑتی ہے اور سایہ معلوم ہوتا ہے۔
لیکن فی الواقع نہ تو وہ سایہ ہے، نہ آگ کی حرارت کو کم کرتا ہے یہ جہنم اتنی تیز تند سخت اور بکثرت آگ والی ہے کہ اس کی چنگاریاں جو اڑتی ہیں وہ بھی مثل قلعہ کے اور تناور درخت کے مضبوط لمبے چوڑے تنے کے ہیں، دیکھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ گویا وہ سیاہ رنگ اونٹ ہیں یا کشتیوں کے رسے ہیں یا تانبے کے ٹکڑے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ہم جاڑے کے موسم میں تین تین ہاتھ کی یا کچھ زیادہ لمبی لکڑیاں لے کر انہیں بلند کر لیتے اسے ہم «قصر» کہا کرتے تھے، کشتی کی رسیاں جب اکٹھی ہو جاتی ہیں تو خاصی اونچی قد آدم کے برابر ہو جاتی ہیں، اسی کو یہاں مراد لیا گیا ہے، ان جھٹلانے والوں پر حسرت و افسوس ہے، آج نہ یہ بول سکیں گے اور نہ انہیں عذر و معذرت کرنے کی اجازت ملے گی کیونکہ ان پر حجت قائم ہو چکی اور ظالموں پر اللہ کی بات ثابت ہو گئی اب انہیں بولنے کی اجازت نہیں، یہ یاد رہے کہ قرآن کریم میں ان کا بولنا، مکرنا، چھپانا، عذر کرنا بھی بیان ہوا ہے۔
تو مطلب یہ ہے کہ حجت قائم ہونے سے پہلے عذر معذرت وغیرہ پیش کریں گے جب سب توڑ دیا جائے گا اور دلیلیں پیش ہو جائیں گی تو اب بول چال، عذر معذرت، ختم ہو جائے گی، غرض میدان حشر کے مختلف مواقع اور لوگوں کی مختلف مواقع اور لوگوں کی مختلف حالتیں ہیں کسی وقت یہ، کسی وقت وہ، اسی لیے یہاں ہر کلام کے خاتمہ پر جھٹلانے والوں کی خرابی کی خبر دے دی جاتی ہے۔
پھر فرماتا ہے ” یہ فیصلے کا دن ہے اگلے پچھلے سب یہاں جمع ہیں اگر تم کسی چالاکی، مکاری، ہوشیاری اور فریب دہی سے میرے قبضے سے نکل سکتے ہو تو نکل جاؤ پوری کوشش کر لو “۔ خیال فرمایئے کہ کس قدر دل ہلا دینے والا فقرہ ہے، پروردگار عالم خود قیامت کے دن ان منکروں سے فرمائے گا کہ ” اب خاموش کیوں ہو؟ وہ عیاری، چالاکی اور بے باکی کیا ہوئی؟ دیکھو میں نے تم سب کو ایک میدان میں حسب وعدہ جمع کر دیا آج اگر کسی حکمت سے مجھ سے چھوٹ سکتے ہو تو کمی نہ کرو “۔
جیسے اور جگہ ہے «يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ»[55-الرحمن:33] یعنی ” اے جن و انس کے گروہ اگر تم آسان و زمین کے کناروں سے باہر چلے جانے کی طاقت رکھتے ہو تو نکل جاؤ مگر اتنا سمجھ لو کہ بغیر قوت کے تم باہر نہیں جا سکتے اور وہ تم میں نہیں “۔
10152
اور جگہ ہے «وَلَا تَضُرُّوْنَهٗ شَـيْـــًٔـا اِنَّ رَبِّيْ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ حَفِيْظٌ» [11-ھود:57] یعنی ” تم اللہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے “۔
حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” اے میرے بندو نہ تو تمہیں، مجھے نفع پہنچانے کا اختیار ہے، نہ نقصان پہنچانے کا، نہ تم مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو، نہ میرا کچھ بگاڑ سکتے ہو “۔ [صحیح مسلم:2577]
سیدنا ابوعبداللہ جدلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں بیت المقدس گیا دیکھا کہ وہاں عبادہ، عبداللہ اور کعب احبار رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے ہیں میں بھی بیٹھ گیا، تو میں نے سنا کہ سیدنا عبادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک چٹیل صاف میدان میں جمع کرے گا، آواز دینے والا آواز دے کر سب کو ہوشیار کر دے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا ” آج کا دن فیصلوں کا دن ہے تم سب اگلے پچھلوں کو میں نے جمع کر دیا ہے، اب میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر میرے ساتھ کوئی دغا فریب، مکر حیلہ کر سکتے ہو تو کر لو، سنو! متکبر، سرکش، منکر اور جھٹلانے والا آج میری پکڑ سے بچ نہیں سکتا اور نہ کوئی نافرمان شیطان میرے عذابوں سے نجات پا سکتا ہے “۔“”سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”لو ایک حدیث میں بھی سنا دوں“، اس دن جہنم اپنی گردن دراز کر کے لوگوں کے بیچوں بیچ پہنچا کر باآواز بلند کہے گی، اے لوگو! تین قسم کے لوگوں کو ابھی ہی پکڑ لینے کا مجھے حکم مل چکا ہے، میں انہیں خوب پہچانتی ہوں کوئی باپ اپنی اولاد کو اور کوئی بھائی اپنے بھائی کو اتنا نہ جانتا ہو گا جتنا میں انہیں پہچانتی ہوں، آج نہ تو وہ مجھ سے کہیں چھپ سکتے ہیں، نہ کوئی انہیں چھپا سکتا ہے۔ ایک تو وہ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا ہو، دوسرے وہ جو منکر اور متکبر ہو اور تیسرے وہ جو نافرمان شیطان ہو، پھر وہ مڑ مڑ کر چن چن کر ان اوصاف کے لوگوں کو میدان حشر میں چھانٹ لے گی اور ایک ایک کو پکڑ کر نکل جائے گی اور حساب سے چالیس سال پہلے ہی یہ جہنم واصل ہو جائیں گے۔ (اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے)۔ آمین