[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چلا۔ [33] یہی تیرے لائق ہے، پھر یہی لائق ہے ۔ [34] پھر تیرے لائق یہی ہے، پھر یہی لائق ہے۔ [35] کیا انسان گمان کرتا ہے کہ اسے بغیر پوچھے ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ [36] کیا وہ منی کا ایک قطرہ نہیں تھا جو گرایا جاتا ہے۔ [37] پھر وہ جما ہوا خون بنا، پھر اس نے پیدا کیا، پس درست بنا دیا۔ [38] پھر اس نے اس سے دو قسمیں نر اور مادہ بنائیں۔ [39] کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ مردوں کو زندہ کر دے؟ [40] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] پھر اپنے گھر والوں کے پاس اتراتا ہوا گیا [33] افسوس ہے تجھ پر حسرت ہے تجھ پر [34] وائے ہے اور خرابی ہے تیرے لیے [35] کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا [36] کیا وه ایک گاڑھے پانی کا قطره نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا؟ [37] پھر وه لہو کا لوتھڑا ہوگیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنا دیا [38] پھر اس سے جوڑے یعنی نر وماده بنائے [39] کیا (اللہ تعالیٰ) اس (امر) پر قادر نہیں کہ مردے کو زنده کردے [40]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] پھر اپنے گھر والوں کے پاس اکڑتا ہوا چل دیا [33] افسوس ہے تجھ پر پھر افسوس ہے [34] پھر افسوس ہے تجھ پر پھر افسوس ہے [35] کیا انسان خیال کرتا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا؟ [36] کیا وہ منی کا جو رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا؟ [37] پھر لوتھڑا ہوا پھر (خدا نے) اس کو بنایا پھر (اس کے اعضا کو) درست کیا [38] پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد اور (ایک) عورت [39] کیا اس خالق کو اس بات پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اُٹھائے؟ [40]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 33، 34، 35، 36، 37، 38، 39، 40،
باب
ہاں جھٹلانے اور منہ موڑنے میں بے باک تھا اور اپنے اس ناکارہ عمل پر اتراتا اور پھولتا ہوا بے ہمتی اور بد عملی کے ساتھ اپنے والوں میں جا ملتا تھا، جیسے اور جگہ ہے «وَإِذَا انقَلَبُوا إِلَىٰ أَهْلِهِمُ انقَلَبُوا فَكِهِينَ»[83-المطففين:31] یعنی ” جب اپنے والوں کی طرف لوٹتے ہیں تو خوب باتیں بناتے ہوئے مزے کرتے ہوئے خوش خوش جاتے ہیں “۔
اور جگہ ہے «إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا إِنَّهُ ظَنَّ أَن لَّن يَحُورَ بَلَىٰ إِنَّ رَبَّهُ كَانَ بِهِ بَصِيرًا»[84-الإنشقاق:13-15] یعنی ” یہ اپنے گھرانے والوں میں شادمان تھا اور سمجھ رہا تھا کہ اللہ کی طرف اسے لوٹنا ہی نہیں۔ اس کا یہ خیال محض غلط تھا اس کے رب کی نگاہیں اس پر تھیں “۔ پھر اسے اللہ تبارک و تعالیٰ دھمکاتا ہے اور ڈر سناتا ہے اور فرماتا ہے ” خرابی ہو تجھے اللہ کے ساتھ کفر کر کے پھر اتراتا ہے “۔
جیسے اور جگہ ہے «ذُقْ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْكَرِيْمُ»[44-الدخان:49] یعنی قیامت کے دن کافر سے بطور ڈانٹ اور حقارت کے کہا جائے گا کہ ” لے اب مزہ چکھ تو تو بڑی عزت اور بزرگی والا تھا “۔
اور فرمان ہے «كُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِيْلًا اِنَّكُمْ مُّجْرِمُوْنَ»[77-المرسلات:46] ” کچھ کھا پی لو آخر تو بدکار گنہگار ہو “۔
اور جگہ ہے «فَاعْبُدُوْا مَا شِئْتُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ»[39-الزمر:15] ” جاؤ اللہ کے سوا جس کی چاہو عبادت کرو “ وغیرہ وغیرہ غرض یہ ہے کہ ان تمام جگہوں میں یہ احکام بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہیں۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے جب یہ آیت «اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى»[75-القيامة:34] ، کی بابت پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ”رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ابوجہل کو فرمایا تھا پھر قرآن میں بھی یہی الفاظ نازل ہوئے۔“[تفسیر ابن جریر الطبری:35734:مرسل]
10070
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی کے قریب قریب نسائی میں موجود ہے، [سنن نسائی:658،قال الشيخ الألباني:صحیح] ابن ابی حاتم میں قتادہ رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر اس دشمن رب نے کہا کہ کیا تو مجھے دھمکاتا ہے؟ اللہ کی قسم تو اور تیرا رب میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان چلنے والوں میں سب سے زیادہ ذی عزت میں ہوں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:35731:مرسل]
کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اسے یونہی چھوڑ دیا جائے گا؟ اسے کوئی حکم اور کسی چیز کی ممانعت نہ کی جائے گی؟ ایسا ہرگز نہیں بلکہ دنیا میں اسے حکم و ممانعت اور آخرت میں اپنے اپنے اعمال کے بموجب جزاء و سزا ضرور ملے گی، مقصود یہاں پر قیامت کا اثبات اور منکرین قیامت کا رد ہے، اسی لیے دلیل کے طور پر کہا جاتا ہے کہ انسان دراصل نطفہ کی شکل میں بے جان و بے بنیاد تھا پانی کا ذلیل قطرہ تھا جو پیٹھ سے رحم میں آیا پھر خون کی پھٹکی بنی، پھر گوشت کا لوتھڑا ہوا، پھر اللہ تعالیٰ نے شکل و صورت دے کر روح پھونکی اور سالم اعضاء والا انسان بنا کر مرد یا عورت کی صورت میں پیدا کیا۔ کیا اللہ جس نے نطفہ ضعیف کو ایسا صحیح القامت قوی انسان بنا دیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ اسے فنا کر کے پھر دوبارہ پیدا کر دے؟ یقیناً پہلی مرتبہ کا پیدا کرنے والا دوبارہ بنانے پر بہت زیادہ اور بطور اولیٰ قادر ہے، یا کم از کم اتنا ہی جتنا پہلی مرتبہ تھا۔
جیسے فرمایا «وَهُوَ الَّذِيْ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَيْهِ»[30-الروم:27] ” اس نے ابتداء پیدا کیا وہی پھر لوٹائے گا اور وہ اس پر بہت زیادہ آسان ہے “۔ اس آیت کے مطلب میں بھی دو قول ہیں، لیکن پہلا قول ہی زیادہ مشہور ہے جیسے کہ سورۃ الروم کی تفسیر میں اس کا بیان اور تقریر گزر چکی۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
10071
ابن ابی حاتم میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ اپنی چھت پر باآواز بلند قرآن شریف پڑھ رہے تھے جب اس سورت کی آخری آیت کی تلاوت کی تو فرمایا «سُبْحَانك اللَّهُمَّ فَبَلَى» یعنی ”اے اللہ تو پاک ہے اور بیشک قادر ہے“، لوگوں نے اس کہنے کا باعث پوچھا: تو فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کا یہی جواب دیتے ہوئے سنا ہے ۔ ابوداؤد میں بھی یہ حدیث ہے [سنن ابوداود:884،قال الشيخ الألباني:صحیح] لیکن دونوں کتابوں میں اس صحابی کا نام نہیں گو یہ نام نہ ہونا مضر نہیں۔
ابوداؤد کی اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص تم میں سے سورۃ والتین کی آخری آیت «اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ»[95-التين:8] پڑھے وہ «بَلَى وَأَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنْ الشَّاهِدِينَ» کہے یعنی ” ہاں اور میں بھی اس پر گواہ ہوں “ اور جو شخص سورۃ قیامت کی آخری آیت «اَلَيْسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰٓي اَنْ يُّـحْيِۦ الْمَوْتٰى»[75-القيامة:40] پڑھے تو وہ کہے «بَلَى» اور جو سورۃ والمرسلات کی آخری آیت «فَبِاَيِّ حَدِيْثٍۢ بَعْدَهٗ يُؤْمِنُوْنَ»[77-المرسلات:50] پڑھے وہ «آمَنَّا بِاَللَّهِ» کہے“۔ [سنن ابوداود:887،قال الشيخ الألباني:ضعیف] یہ حدیث مسند احمد اور ترمذی میں بھی ہے۔
ابن جریر میں قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری آیت کے بعد فرماتے «سُبْحَانك وَبَلَى»۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:35738:] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کے جواب میں یہ کہنا ابن ابی حاتم میں مروی ہے۔
سورۃ القیامہ کی تفسیر «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» ختم ہوئی۔