[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ہرگز نہیں، ( وہ وقت یاد کرو) جب (جان) ہنسلیوں تک پہنچ جائے گی۔ [26] اور کہا جائے گا کون ہے دم کرنے والا؟ [27] اوروہ یقین کرلے گا کہ یہ جدائی ہے۔ [28] اور پنڈلی، پنڈلی کے ساتھ لپٹ جائے گی۔ [29] اس دن تیرے رب ہی کی طرف روانگی ہے۔ [30] سو نہ اس نے سچ مانا اور نہ نماز ادا کی۔ [31] اور لیکن اس نے جھٹلایا اور منہ پھیرا۔ [32] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] نہیں نہیں جب روح ہنسلی تک پہنچے گی [26] اور کہا جائے گا کہ کوئی جھاڑ پھونک کرنے واﻻ ہے؟ [27] اور جان لیا اس نے کہ یہ وقت جدائی ہے [28] اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی [29] آج تیرے پروردگار کی طرف چلنا ہے [30] اس نے نہ تو تصدیق کی نہ نماز ادا کی [31] بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی [32]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] دیکھو جب جان گلے تک پہنچ جائے [26] اور لوگ کہنے لگیں (اس وقت) کون جھاڑ پھونک کرنے والا ہے [27] اور اس (جان بلب) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے [28] اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے [29] اس دن تجھ کو اپنے پروردگار کی طرف چلنا ہے [30] تو اس (ناعاقبت) اندیش نے نہ تو (کلام خدا) کی تصدیق کی نہ نماز پڑھی [31] بلکہ جھٹلایا اور منہ پھیر لیا [32]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 26، 27، 28، 29، 30، 31، 32،
جب ہماری روح حلق تک پہنچ جاتی ہے اور اس کے بعد کیا ہوتا ہے ٭٭
یہاں موت کا اور سکرات کی کیفیت کا بیان ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس وقت حق پر ثابت قدم رکھے۔ «كَلَّا» کو اگر یہاں ڈانٹ کے معنی میں لیا جائے تو یہ معنی ہوں گے کہ ” اے ابن آدم! تو جو میری خبروں کو جھٹلاتا ہے یہ درست نہیں بلکہ ان کے مقدمات تو تو روزمرہ کھلم کھلا دیکھ رہا ہے “ اور اگر اس لفظ کو «حقا» کے معنی میں لیں تو مطلب اور زیادہ ظاہر ہے یعنی ” یہ بات یقینی ہے کہ جب تیری روح تیرے جسم سے نکلنے لگے اور تیرے نرخرے تک پہنچ جائے “۔
«تَّرَاقِيَ» جمع ہے «تَرْقُوّٰةُ» کی ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو سینے پر اور مونڈھوں کے درمیان میں ہیں جسے ہانس کی ہڈی کہتے ہیں۔
جیسے اور جگہ ہے «فَلَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُونَ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ تَرْجِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ»[56-الواقعة:87-83] فرمایا ہے یعنی ” جبکہ روح حلق تک پہنچ جائے اور تم دیکھ رہے ہو اور ہم تم سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے پس اگر تم حکم الٰہی کے ماتحت نہیں ہو اور اپنے اس قول میں سچے ہو تو اس روح کو کیوں نہیں لوٹا لاتے؟ “
اس مقام پر اس حدیث پر بھی نظر ڈال لی جائے جو بشر بن حجاج کی روایت سے سورۃ یٰسین کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔
«تَّرَاقِيَ» جو جمع ہے «تَرْقُوّٰةُ» کی ان ہڈیوں کو کہتے ہیں جو «حلقوم» کے قریب ہیں اس وقت ہائی دہائی ہوتی ہے کہ کوئی ہے جو جھاڑ پھونک کرے یعنی کسی طبیب وغیرہ کے ذریعہ شفاء ہو سکتی ہے؟ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہے یعنی اس روح کو لے کر کون چڑھے گا رحمت کے فرشتے یا عذاب کے؟
اور پنڈلی سے پنڈلی کے رگڑا کھانے کا ایک مطلب تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے یہ مروی ہے کہ ”دنیا اور آخرت اس پر جمع ہو جاتی ہے دنیا کا آخری دن ہوتا ہے اور آخرت کا پہلا دن ہوتا ہے جس سے سختی اور سخت ہو جاتی ہے مگر جس پر رب رحیم کا رحم و کرم ہو۔“
دوسرا مطلب عکرمہ رحمہ اللہ سے یہ مروی ہے کہ ایک بہت بڑا امیر دوسرے بہت بڑے امیر سے مل جاتا ہے بلا پر بلا آ جاتی ہے، تیسرا مطلب حسن بصری رحمہ اللہ وغیرہ سے مروی ہے کہ خود مرنے والے کی بے قراری، شدت درد سے پاؤں پر پاؤں کا چڑھ جانا مراد ہے۔ پہلے تو ان پیروں پر چلتا پھرتا تھا اب ان میں جان کہاں؟ اور یہ بھی مروی ہے کہ کفن کے وقت پنڈلی سے پنڈلی کامل جانا مراد ہے۔
10062
چوتھا مطلب ضحاک رحمہ اللہ سے یہ بھی مروی ہے کہ دو کام دو طرف جمع ہو جاتے ہیں ادھر تو لوگ اس کے جسم کو نہلا دھلا کر سپرد خاک کرنے کو تیار ہیں، ادھر فرشتے اس کی روح لے جانے میں مشغول ہیں، اگر نیک ہے تو عمدہ تیاری اور دھوم کے ساتھ، اگر بد ہے تو نہایت ہی برائی اور بدتر حالت کے ساتھ، اب لوٹنے، قرار پانے، رہنے سہنے، پہنچ جانے، کھچ کر اور چل کر پہنچنے کی جگہ اللہ ہی کی طرف ہے روح آسمان کی طرف چڑھائی جاتی ہے پھر وہاں سے حکم ہوتا ہے کہ اسے زمین کی طرف واپس لے جاؤ میں نے ان سب کو اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹا کر لے جاؤں گا اور پھر اسی سے انہیں دوبارہ نکالوں گا۔“
جیسے کہ سیدنا براء رضی اللہ عنہ کی مطول حدیث میں آیا ہے، یہی مضمون اور جگہ بیان ہوا ہے «وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لَا يُفَرِّطُونَ ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّـهِ مَوْلَاهُمُ الْحَقِّ أَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ أَسْرَعُ الْحَاسِبِينَ»[6-الأنعام:62،61] ، ” وہی اپنے بندوں پر غالب ہے وہی تمہاری حفاظت کے لیے تمہارے پاس فرشتے بھیجتا ہے یہاں تک کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اسے فوت کر لیتے ہیں اور وہ کوئی قصور نہیں کرتے پھر سب کے سب اپنے سچے مولا کی طرف لوٹائے جاتے ہیں یقین مانو کہ حکم اسی کا چلتا ہے اور وہ سب سے جلد حساب لینے والا ہے “۔
پھر اس کافر انسان کا حال بیان ہو رہا ہے جو اپنے دل اور عقیدے سے حق کا جھٹلانے والا اور اپنے بدن اور عمل سے حق سے روگردانی کرنے والا تھا جس کا ظاہر باطن برباد ہو چکا تھا اور کوئی بھلائی اس میں باقی نہیں رہی تھی، نہ وہ اللہ کی باتوں کی دل سے تصدیق کرتا تھا نہ جسم سے عبادت اللہ بجا لاتا تھا یہاں تک کہ نماز کا بھی چور تھا۔