[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] تو جب ہم اسے پڑھیں تو تو اس کے پڑھنے کی پیروی کر۔ [18] پھر بلاشبہ اسے واضح کرنا ہمارے ذمے ہے۔ [19] ہرگز نہیں، بلکہ تم جلدی ملنے والی کو پسند کرتے ہو۔ [20] اور بعد میں آنے والی کو چھوڑ دیتے ہو۔ [21] اس دن کئی چہرے ترو تازہ ہوں گے۔ [22] اپنے رب کی طرف دیکھنے والے۔ [23] اور کئی چہرے اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے۔ [24] وہ یقین کریں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑنے والی(سختی) کی جائے گی۔ [25] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ہم جب اسے پڑھ لیں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی کریں [18] پھر اس کا واضح کر دینا ہمارے ذمہ ہے [19] نہیں نہیں تم جلدی ملنے والی (دنیا) کی محبت رکھتے ہو [20] اور آخرت کو چھوڑ بیٹھے ہو [21] اس روز بہت سے چہرے تروتازه اور بارونق ہوں گے [22] اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے [23] اور کتنے چہرے اس دن (بد رونق اور) اداس ہوں گے [24] سمجھتے ہوں گے کہ ان کے ساتھ کمر توڑ دینے واﻻ معاملہ کیا جائے گا [25]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم (اس کو سنا کرو اور) پھر اسی طرح پڑھا کرو [18] پھر اس (کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے [19] مگر (لوگو) تم دنیا کو دوست رکھتے ہو [20] اور آخرت کو ترک کئے دیتے ہو [21] اس روز بہت سے منہ رونق دار ہوں گے [22] اور) اپنے پروردگار کے محو دیدار ہوں گے [23] اور بہت سے منہ اس دن اداس ہوں گے [24] خیال کریں گے کہ ان پر مصیبت واقع ہونے کو ہے [25]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 18، 19، 20، 21، 22، 23، 24، 25،
باب
بخاری شریف میں یہ بھی ہے کہ پھر جب وحی اترتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نظریں نیچی کر لیتے اور جب وحی چلی جاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے ۔ [صحیح بخاری:4927] ۔
ابن ابی حاتم میں بھی بروایت ابن عباس یہ حدیث مروی ہے اور بہت سے مفسرین سلف صالحین نے یہی فرمایا ہے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو میں بھول جاؤں اس پر یہ آیتیں اتریں ۔
10051
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عطیہ عوفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کا بیان ہم پر ہے یعنی حلال حرام کا واضح کرنا۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول بھی یہی ہے۔
پھر فرمان ہوتا ہے کہ ” ان کافروں کو قیامت کے انکار، اللہ کی پاک کتاب کو نہ ماننے اور اللہ کے عظیم الشان رسول کی اطاعت نہ کرنے پر آمادہ کرنے والی چیز حب دنیا اور غفلت آخرت ہے، حالانکہ آخرت کا دن بڑی اہمیت والا دن ہے، اس دن بہت سے لوگ تو وہ ہوں گے جن کے چہرے ہشاش بشاش، تروتازہ، خوش و خرم ہوں گے اور اپنے رب کے دیدار سے مشرف ہو رہے ہوں گے “۔
جیسے کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عنقریب تم اپنے رب کو صاف صاف کھلم کھلا اپنے سامنے دیکھو گے [صحیح بخاری:7434] ، بہت سی صحیح احادیث سے متواتر سندوں سے جو ائمہ حدیث نے اپنی کتابوں میں وارد کی ہیں ثابت ہو چکا ہے کہ ایمان والے اپنے رب کے دیدار سے قیامت کے دن مشرف ہوں گے ان احادیث کو نہ تو کوئی ہٹا سکے نہ ان کا کوئی انکار کر سکے۔
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ابوسعید اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت کے دن دیکھیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سورج اور چاند کو جبکہ آسمان صاف بے ابر ہو دیکھنے میں تمہیں کوئی مزاحمت یا رکاوٹ ہوتی ہے؟“، انہوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی طرح تم اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے“۔ [صحیح بخاری:7437]
بخاری و مسلم میں ہے سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چودہویں رات کے چاند کو دیکھ رہے ہو پس اگر تم سے ہو سکے تو سورج نکلنے سے پہلے کی نماز (یعنی صبح کی نماز) اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نماز (یعنی عصر کی نماز) میں کسی طرح کی سستی نہ کرو“۔ [صحیح بخاری:573]
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے انہی دونوں متبرک کتابوں میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو جنتیں سونے کی ہیں وہاں کے برتن اور ہر چیز سونے کی ہے اور دو جنتیں چاندی کی ہیں اور ان کے برتن اور ہر چیز چاندی ہی کی ہے سوائے کبریائی کی چادروں کے اور کوئی آڑ نہیں“ یہ جنت عدن کا ذکر ہے ۔ [صحیح بخاری:4878]
10052
صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا ” کچھ چاہتے ہو کہ بڑھا دوں؟ “ وہ کہیں گے الٰہی تو نے ہمارے چہرے سفید نورانی کر دیئے، ہمیں جنت میں پہنچا دیا جہنم سے بچا لیا اب ہمیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ اسی وقت حجاب ہٹا دیئے جائیں گے اور ان اہل جنت کی نگاہیں جمال باری سے منور ہوں گی اس میں انہیں جو سرور و لذت حاصل ہو گی وہ کسی چیز میں نہ حاصل ہو گی سب سے زیادہ محبوب انہیں دیدار باری ہو گا اسی کو اس آیت میں لفظ «الزِّيَادَةُ» سے تعبیر کیا گیا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «لِلَّذِيْنَ اَحْسَـنُوا الْحُسْنٰى وَزِيَادَةٌ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوْهَھُمْ قَتَرٌ وَّلَا ذِلَّةٌ اُولٰىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ»[10-یونس:26] یعنی ” احسان کرنے والوں کو جنت بھی ملے گی اور دیدار رب بھی “۔ [صحیح مسلم:181]
صحیح مسلم کی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنوں پر قیامت کے میدان میں مسکراتا ہوا تجلی فرمائے گا ۔ [صحیح مسلم:191] پس معلوم ہوا کہ ایماندار قیامت کے عرصات میں اور جنتوں میں دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے۔
مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”سب سے ہلکے درجہ کا جنتی اپنے ملک اور اپنی ملکیت کو دو ہزار سال دیکھتا رہے گا دور اور نزدیک کی چیزیں یکساں نگاہ میں ہوں گی ہر طرف اور ہر جگہ اسی کی بیویاں اور خادم نظر آئیں گے اور اعلیٰ درجہ کے جنتی ایک ایک دن میں دو دو مرتبہ اللہ تعالیٰ کے بزرگ چہرے کو دیکھیں گے“۔ [سنن ترمذي:3330،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ترمذی شریف میں بھی یہ حدیث ہے، یہ حدیث بروایت ابن عمر مرفوعًا بھی مروی ہے۔
ہمیں ڈر ہے کہ اگر اس قسم کی تمام حدیثیں اور روایتیں اور ان کی سندیں اور ان کے مختلف الفاظ یہاں جمع کریں گے تو مضمون بہت طویل ہو جائے گا بہت ہی صحیح اور حسن حدیثیں بہت سی مسند اور سنن کی کتابوں میں مروی ہیں جن میں اکثر ہماری اس تفسیر میں متفرق مقامات پر آ بھی گئی ہیں، ہاں توفیق اللہ کے ہاتھ میں ہے، اللہ کا شکر ہے کہ اس مسئلہ میں یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار مومنوں کو قیامت کے دن ہونے میں صحابہ، تابعین اور سلف امت کا اتفاق اور اجماع ہے ائمہ اسلام اور ہداۃ انام سب اس پر متفق ہیں، جو لوگ اس کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مراد اس سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو دیکھنا جیسے مجاہد اور ابوصالح رحمہ اللہ علیہم سے تفسیر ابن جریر میں مروی ہے ان کا قول حق سے دور اور سراسر تکلف سے معمور ہے، ان کے پاس اس آیت کا کیا جواب ہے جہاں بدکاروں کی نسبت فرمایا گیا ہے «كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ»[83-المطففين:15] یعنی ” فاجر قیامت کے دن اپنے پروردگار سے پردے میں کر دیئے جائیں گے “۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ ”فاجروں کے دیدار الٰہی سے محروم رہنے کا صاف مطلب یہی ہے کہ «ابرار» یعنی نیک کار لوگ دیدار الٰہی سے مشرف کئے جائیں گے“ اور متواتر احادیث سے ثابت ہو چکا ہے اور اسی پر اس آیت کی روانگی الفاظ صاف دلالت کرتی ہے کہ ایماندار دیدار باری سے محظوظ ہوں گے۔
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ چہرے حسن و خوبی والے ہوں گے کیونکہ دیدار رب پر ان کی نگاہیں پڑتی ہوں گی پھر بھلا یہ منور و حسین کیوں نہ ہوں اور بہت سے منہ اس دن بگڑے ہوئے ہوں گے، بدشکل ہو رہے ہوں گے، بے رونق اور اداس ہوں گے، انہیں یقین ہو گا کہ ہم کوئی ہلاکت اور اللہ کی پکڑ آئی، ابھی ہمیں جہنم میں جانے کا حکم ہوا۔
10053
جیسے اور جگہ ہے «يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ»[3-آل عمران:106] ” جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور بعض سیاه، سیاه چہرے والوں (سے کہا جائے گا) کہ کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو “۔
اور آیت میں ہے «وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ وَوُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ»[80-عبس:38-42] یعنی ” اس دن بعض چہرے گورے چٹے خوبصورت اور حسین ہوں گے اور بعض کالے منہ والے ہوں گے “۔
اور جگہ سے «وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ خَاشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ تَصْلَىٰ نَارًا حَامِيَةً تُسْقَىٰ مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍ لَّا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِن جُوعٍ»[88-الغاشية:7-2] ، یعنی ” قیامت کے دن بہت سے چہرے خوف زدہ دہشت اور ڈر والے، بدرونق اور ذلیل ہوں گے جو عمل کرتے رہے، تکلیف اٹھاتے رہے لیکن آج بھڑکتی ہوئی آگ میں جا گھسے “۔
پھر فرمایا «وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاعِمَةٌلِّسَعْيِهَا رَاضِيَةٌ فِي جَنَّةٍ عَالِيَةٍ»[88-الغاشية:10-8] ، یعنی ” بعض چہرے ان دن نعتموں والے خوش و خرم چمکیلے اور شادان و فرحان بھی ہوں گے، جو اپنے گزشتہ اعمال سے خوش ہوں گے اور بلند و بالا جنتوں میں اقامت رکھتے ہوں گے “، اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔