تفسير ابن كثير



سورۃ القيامة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ[1] وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ[2] أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَلَّنْ نَجْمَعَ عِظَامَهُ[3] بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ[4] بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسَانُ لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ[5] يَسْأَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ[6] فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ[7] وَخَسَفَ الْقَمَرُ[8]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] نہیں، میں قیامت کے دن کی قسم کھاتا ہوں! [1] اور نہیں، میںبہت ملامت کرنے والے نفس کی قسم کھاتا ہوں! [2] کیا انسان گمان کرتا ہے کہ ہم کبھی اس کی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے۔ [3] کیوں نہیں؟ (ہم انھیں اکٹھا کریں گے) اس حال میں کہ ہم قادر ہیں کہ اس (کی انگلیوں) کے پورے درست کر (کے بنا) دیں۔ [4] بلکہ انسان چاہتا ہے کہ اپنے آگے (آنے والے دنوں میں بھی) نافرمانی کرتا رہے۔ [5] وہ پوچھتا ہے اٹھ کھڑے ہونے کا دن کب ہو گا؟ [6] پھر جب آنکھ پتھرا جائے گی۔ [7] اور چاند گہنا جائے گا۔ [8]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی [1] اور قسم کھاتا ہوں اس نفس کی جو ملامت کرنے واﻻ ہو [2] کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں [3] ہاں ضرور کریں گے ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کردیں [4] بلکہ انسان تو چاہتا ہے کہ آگے آگے نافرمانیاں کرتا جائے [5] پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب آئے گا [6] پس جس وقت کہ نگاه پتھرا جائے گی [7] اور چاند بے نور ہو جائے گا [8]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہم کو روز قیامت کی قسم [1] اور نفس لوامہ کی (کہ سب لوگ اٹھا کر) کھڑے کئے جائیں گے [2] کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی (بکھری ہوئی) ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے؟ [3] ضرور کریں گے (اور) ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کردیں [4] مگر انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے [5] پوچھتا ہے کہ قیامت کا دن کب ہوگا؟ [6] جب آنکھیں چندھیا جائیں [7] اور چاند گہنا جائے [8]۔
........................................


تفسیر آیت/آیات، 1، 2، 3، 4، 5، 6، 7، 8،

ہم سب اپنے اعمال کا خود آئینہ ہیں ٭٭

یہ کئی دفعہ بیان ہو چکا ہے کہ جس چیز پر قسم کھائی جائے اگر وہ رد کرنے کی چیز ہو تو قسم سے پہلے «لا» کا کلمہ نفی کی تائید کے لیے لانا جائز ہوتا ہے یہاں قیامت کے ہونے پر اور جاہلوں کے اس قول کی تردید پر قیامت نہ ہو گی قسم کھائی جا رہی ہے تو فرماتا ہے ” قسم ہے قیامت کے دن کی اور قسم ہے ملامت کرنے والی جان کی “۔

حسن رحمہ اللہ تو فرماتے ہیں قیامت کی قسم ہے اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم نہیں ہے، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں دونوں کی قسم ہے، حسن اور اعرج رحمہ اللہ علیہم کی قرأت «لَأُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ» ہے اس سے بھی حسن رحمہ اللہ کے قول کی تائید ہوتی ہے اس لیے کہ ان کے نزدیک پہلے کی قسم ہے اور دوسرے کی نہیں، لیکن صحیح قول یہی ہے کہ دونوں کی قسم کھائی ہے جیسے کہ قتادہ رحمہ اللہ کا فرمان ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سعید بن جبیر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے اور امام ابن جریر رحمہ اللہ کا مختار قول بھی یہی ہے۔ یوم قیامت کو تو ہر شخص جانتا ہی ہے۔
10031

«نفس لوامہ» کی تفسیر میں حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اس سے مراد مومن کا نفس ہے وہ ہر وقت اپنے تئیں ملامت ہی کرتا رہتا ہے کہ یوں کیوں کہہ دیا؟، یہ کیوں کھا لیا؟، یہ خیال دل میں کیوں آیا؟ ہاں فاسق، فاجر، غافل ہوتا ہے اسے کیا پڑی جو اپنے نفس کو روکے۔

یہ بھی مروی ہے کہ زمین و آسمان کی تمام مخلوق قیامت کے دن اپنے تئیں ملامت کرے گی، خیر والے خیر کی کمی پر اور شر والے شر کے سرزد ہونے پر، یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد مذموم نفس ہے جو نافرمان ہو، فوت شدہ پر نادم ہونے والا اور اس پر ملامت کرنے والا۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں یہ سب اقوال قریب قریب ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ نفس والا ہے جو نیکی کی کمی پر برائی کے ہو جانے پر اپنے نفس کو ملامت کرتا ہے اور فوت شدہ پر ندامت کرتا ہے۔‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے ” کیا انسان یہ سوچے ہوئے ہے کہ ہم قیامت کے دن اس کی ہڈیوں کے جمع کرنے پر قادر نہ ہوں گے، یہ تو نہایت غلط خیال ہے ہم اسے متفرق جگہ سے جمع کر کے دوبارہ کھڑا کریں گے اور اس کی بالشت بالشت بنا دیں گے “۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں یعنی ہم قادر ہیں کہ اسے اونٹ یا گھوڑے کے تلوے کی طرح بنا دیں، امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی دنیا میں بھی اگر ہم چاہتے اسے ایسا کر دیتے۔‏‏‏‏

آیت کے لفظوں سے تو ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ «قَادِرِينَ» حال ہے «نَّجْمَعَ» سے یعنی کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے ہاں ہاں ہم عنقریب جمع کریں گے درآنحالیکہ ہمیں ان کے جمع کرنے کی قدرت ہے بلکہ اگر ہم چاہیں تو جتنا یہ تھا اس سے بھی کچھ زیادہ بنا کر اسے اٹھائیں اس کی انگلیوں کے سرے تک برابر کر کے پیدا کریں۔ ابن قتیبہ اور زجاج کے قول کے یہی معنی ہیں۔

پھر فرماتا ہے کہ انسان اپنے آگے فسق و فجور کرنا چاہتا ہے یعنی قدم بہ قدم بڑھ رہا ہے، امیدیں باندھے ہوئے ہے، کہتا جاتا ہے کہ گناہ کر تو لوں توبہ بھی ہو جائے گی قیامت کے دن سے جو اس کے آگے ہے کفر کرتا ہے، وہ گویا اپنے سر پر سوار ہو کر آگے بڑھ رہا ہے، ہر وقت یہی پایا جاتا ہے کہ ایک ایک قدم اپنے نفس کو اللہ کی معصیت کی طرف بڑھاتا جاتا ہے مگر جن پر رب کا رحم ہے۔

اکثر سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہی ہے کہ گناہوں میں جلدی کرتا ہے اور توبہ میں تاخیر کرتا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جو یوم حساب کا منکر ہے، ابن زید رحمہ اللہ بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ظاہر مراد ہے کیونکہ اس کے بعد ہی ہے کہ وہ پوچھتا ہے قیامت کب ہوگی، اس کا یہ سوال بھی بطور انکار کے ہے یہ جانتا ہے کہ قیامت کا آنا محال ہے۔

جیسے اور جگہ ہے «وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَـٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ قُل لَّكُم مِّيعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ» [34-سبأ:29،30] ‏‏‏‏، ” کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتا دو کہ قیامت کب آئے گی؟ ان سے کہہ دے کہ اس کا ایک دن مقرر ہے جس سے نہ تم ایک ساعت آگے بڑھ سکو گے نہ پیچھے ہٹ سکو گے “۔
10032



https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.