[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یہاں تک کہ ہمارے پاس یقین آگیا۔ [47] پس انھیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہیں دے گی۔ [48] تو انھیں کیا ہے کہ نصیحت سے منہ موڑنے والے ہیں۔ [49] جیسے وہ سخت بدکنے والے گدھے ہیں۔ [50] جو شیر سے بھاگے ہیں۔ [51] بلکہ ان میں سے ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ اسے کھلے ہوئے صحیفے دیے جائیں۔ [52] ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، بلکہ وہ آخرت سے نہیں ڈرتے۔ [53] ہرگز نہیں! یقینا یہ ایک یاد دہانی ہے۔ [54] تو جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔ [55] اور وہ نصیحت حاصل نہیں کریں گے مگر یہ کہ اللہ چاہے، وہی لائق ہے کہ (اس سے) ڈرا جائے اور لائق ہے کہ بخش دے۔ [56] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی [47] پس انہیں سفارش کرنے والوں کی سفارش نفع نہ دے گی [48] انہیں کیا ہو گیا ہے؟ کہ نصیحت سے منھ موڑ رہے ہیں [49] گویا کہ وه بِدکے ہوئے گدھے ہیں [50] جو شیر سے بھاگے ہوں [51] بلکہ ان میں سے ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے کھلی ہوئی کتابیں دی جائیں [52] ہرگز ایسا نہیں (ہوسکتا بلکہ) یہ قیامت سے بے خوف ہیں [53] سچی بات تو یہ ہے کہ یہ (قرآن) ایک نصیحت ہے [54] اب جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے [55] اور وه اس وقت نصیحت حاصل کریں گے جب اللہ تعالیٰ چاہے، وه اسی ﻻئق ہے کہ اس سے ڈریں اور اس ﻻئق بھی کہ وه بخشے [56]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] یہاں تک کہ ہمیں موت آگئی [47] (تو اس حال میں) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی [48] ان کو کیا ہوا ہے کہ نصیحت سے روگرداں ہو رہے ہیں [49] گویا گدھے ہیں کہ بدک جاتے ہیں [50] (یعنی) شیر سے ڈر کر بھاگ جاتے ہیں [51] اصل یہ ہے کہ ان میں سے ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کھلی ہوئی کتاب آئے [52] ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو آخرت کا خوف ہی نہیں [53] کچھ شک نہیں کہ یہ نصیحت ہے [54] تو جو چاہے اسے یاد رکھے [55] اور یاد بھی تب ہی رکھیں گے جب خدا چاہے۔ وہی ڈرنے کے لائق اور بخشش کا مالک ہے [56]۔ ........................................
اب اللہ مالک الملک فرماتا ہے کہ ” ایسے لوگوں کو کسی کی سفارش اور شفاعت نفع نہ دے گی اس لیے کہ شفاعت وہاں نافع ہو جاتی ہے جہاں محل شفاعت ہو لیکن جن کا دم ہی کفر پر نکلا ہو ان کے لیے شفاعت کہاں؟ وہ ہمیشہ کے لیے «ھاویہ» میں گئے “۔
پھر فرمایا: ” کیا بات ہے کہ کون سی وجہ ہے کہ یہ کافر تیری نصیحت اور دعوت سے منہ پھیر رہے ہیں اور قرآن و حدیث سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے جنگلی گدھے شکاری شیر سے “۔
فارسی زبان میں جسے شیر کہتے ہیں اسے عربی میں «اسد» کہتے ہیں اور حبشی زبان میں «قَسْوَرَةٍ» کہتے ہیں اور نبطی زبان میں «رویا» ۔
پھر فرماتا ہے ” یہ مشرکین تو چاہتے ہیں کہ ان میں کے ہر شخص پر علیحدہ علیحدہ کتاب اترے “۔ جیسے اور جگہ ان کا مقولہ ہے «حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ»[6-الأنعام:124] یعنی ” جب ان کے پاس کوئی آیت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم تو ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ وہ نہ دیئے جائیں جو اللہ کے رسولوں کو دیا گیا ہے “۔
” اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے کہ رسالت کے قابل کون ہے؟ “ اور یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ ” ہم بغیر عمل کے چھٹکارا دے دیئے جائیں “۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” دراصل وجہ یہ ہے کہ انہیں آخرت کا خوف ہی نہیں کیونکہ انہیں اس کا یقین نہیں اس پر ایمان نہیں بلکہ اسے جھٹلاتے ہیں تو پھر ڈرتے کیوں؟۔
پھر فرمایا ” سچی بات تو یہ ہے کہ یہ قرآن محض نصیحت و موعظت ہے جو چاہے عبرت حاصل کر لے اور نصیحت پکڑ لے “۔
جیسے فرمان ہے «وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ»[76-الإنسان:30] یعنی ” تمہاری چاہتیں اللہ کی چاہت کی تابع ہیں “۔
پھر فرمایا ” اسی کی ذات اس قابل ہے کہ اس سے خوف کھایا جائے اور وہی ایسا ہے کہ ہر رجوع کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے “۔
10020
مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ تمہارا رب فرماتا ہے میں اس کا حقدار ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور میرے ساتھ دوسرا معبود نہ ٹھہرایا جائے جو میرے ساتھ شریک بنانے سے بچ گیا تو وہ میری بخشش کا مستحق ہو گیا۔ ۔ [سنن ترمذي:3328،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ابن ماجہ اور نسائی اور ترمذی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے، اور امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے حسن غریب کہتے ہیں، سہیل اس کا راوی قوی نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے احسان سے سورۃ المدثر کی تفسیر بھی ختم ہوئی۔ «فالْحَمْدُ لِلَّـه»