[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] چھوڑ مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔ [11] اور میں نے اسے لمبا چوڑا مال عطا کیا۔ [12] اور حاضر رہنے والے بیٹے (عطا کیے)۔ [13] اور میں نے اس کے لیے سامان تیار کیا، ہر طرح تیار کرنا۔ [14] پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔ [15] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] مجھے اور اسے چھوڑ دے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے [11] اور اسے بہت سا مال دے رکھا ہے [12] اور حاضر باش فرزند بھی [13] اور میں نے اسے بہت کچھ کشادگی دے رکھی ہے [14] پھر بھی اس کی چاہت ہے کہ میں اسے اور زیاده دوں [15]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ہمیں اس شخص سے سمجھ لینے دو جس کو ہم نے اکیلا پیدا کیا [11] اور مال کثیر دیا [12] اور (ہر وقت اس کے پاس) حاضر رہنے والے بیٹے دیئے [13] اور ہر طرح کے سامان میں وسعت دی [14] ابھی خواہش رکھتا ہے کہ اور زیادہ دیں [15]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 11، 12، 13، 14، 15،
جہنم کی ایک وادی، صعود اور ولید بن مغیرہ ٭٭
جس خبیث شخص نے اللہ کی نعمتوں کا کفر کیا اور قرآن کو انسانی قول کہا اس کی سزاؤں کا ذکر ہو رہا ہے، پہلے جو نعمتیں اس پر انعام ہوئی ہیں ان کا بیان ہو رہا ہے کہ ” یہ تن تنہا، خالی ہاتھ دنیا میں آیا تھا، مال اولاد دیا اور کچھ اس کے پاس نہ تھا پھر اللہ نے اسے مالدار بنا دیا، ہزاروں لاکھوں دینار، زر، زمین وغیرہ عنایت فرمائی اور باعتبار بعض اقوال کے تیرہ اور بعض اور اقوال کے دس لڑکے دیئے جو سب کے سب اس کے پاس بیٹھے رہتے تھے نوکر، چاکر، لونڈی، غلام کام کاج کرتے رہتے اور یہ مزے سے اپنی زندگی اپنی اولاد کے ساتھ گزارتا، غرض دھن دولت لونڈی غلام بال بچے آرام آسائش ہر طرح کی مہیا تھی، پھر بھی خواہش نفس پوری نہیں ہوتی تھی اور چاہتا تھا کہ اللہ اور بڑھا دے، حالانکہ ایسا اب نہ ہو گا، یہ ہمارے احکامات کے علم کے بعد بھی کفر اور سرکشی کرتا ہے اسے «صعود» پر چڑھایا جائے گا “۔