[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور یہ کہ ہم میں سے کچھ نیک ہیں اور ہم میں کچھ اس کے علاوہ ہیں، ہم مختلف گروہ چلے آئے ہیں۔ [11] اور یہ کہ ہم نے یقین کر لیا کہ بے شک ہم کبھی اللہ کو زمین میں عاجز نہیں کر سکیں گے اور نہ ہی بھاگ کر کبھی اسے عاجز کر سکیں گے۔ [12] ........................................
[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اور یہ کہ (بیشک) بعض تو ہم میں نیکو کار ہیں اور بعض اس کے برعکس بھی ہیں، ہم مختلف طریقوں سے بٹے ہوئے ہیں [11] اور ہم نے سمجھ لیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو زمین میں ہرگز عاجز نہیں کرسکتے اور نہ ہم بھاگ کر اسے ہرا سکتے ہیں [12]۔ ........................................
[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور یہ کہ ہم میں کوئی نیک ہیں اور کوئی اور طرح کے۔ ہمارے کئی طرح کے مذہب ہیں [11] اور یہ کہ ہم نے یقین کرلیا ہے کہ ہم زمین میں (خواہ کہیں ہوں) خدا کو ہرا نہیں سکتے اور نہ بھاگ کر اس کو تھکا سکتے ہیں [12]۔ ........................................
تفسیر آیت/آیات، 11، 12،
جنات میں بھی کافر اور مسلمان موجود ہیں ٭٭
جنات اپنی قوم کا اختلاف بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”ہم میں نیک بھی ہیں اور بد بھی ہیں ہم مختلف راہوں پر لگے ہوئے تھے۔“ اعمش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ایک جن ہمارے پاس آیا کرتا تھا، میں نے ایک مرتبہ اس سے پوچھا کہ تمام کھانوں میں سے تمہیں کون سا کھانا پسند ہے؟ اس نے کہا چاول۔ میں نے لا کر دیئے تو دیکھا کہ لقمہ برابر اٹھ رہا ہے لیکن کھانے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ میں نے پوچھا جو خواہشات ہم میں ہیں کیا تم بھی ہیں؟ اس نے کہا ہاں، میں نے پھر پوچھا کہ رافضی تم میں کیسے گنے جاتے ہیں؟ کہا بدترین۔ حافظ ابوالحجاج مذنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے۔
ابن عساکر میں ہے عباس بن احمد دمشقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے رات کے وقت ایک جن کو اشعار میں یہ کہتے سنا کہ دل اللہ کی محبت سے لبریز ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ مشرق و مغرب میں اس کی جڑیں جم گئی ہیں اور اللہ کی محبت میں حیران و پریشان ادھر ادھر پھر رہے ہیں جو ان کا رب ہے انہوں نے مخلوق سے تعلقات کاٹ کر اپنے تعلقات اللہ سے وابستہ کر لیے ہیں۔
پھر ہم کہتے ہیں ہمیں معلوم ہو چکا کہ اللہ کی قدرت ہم پر حاکم ہے ہم اس سے نہ بھاگ کر بچ سکیں نہ کسی اور طرح اسے عاجز کر سکیں۔ اب فخریہ کہتے ہیں کہ ہم تو ہدایت نامے کو سنتے ہی اس پر ایمان لا چکے ہیں، فی الواقع ہے بھی یہ فخر کا مقام۔ اس سے زیادہ شرف اور فضیلت اور کیا ہو سکتی ہے کہ رب کا کلام فوری اثر کرے۔